فیک لائف کا فتنہ

انسان کے اخلاقی وجود کو جو خطرناک بیماریاں لاحق ہیں ان میں جھوٹ اور مبالغے پر مبنی زندگی گزار نے کافتنہ آج کل کے دور میں سر فہرست ہے۔ ایک وقت تھا کہ انسان کی زندگی کے نجی پہلو پوشیدہ رہتے تھے مگر سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی کے دور میں اب کوئی چیز پرائیویٹ رہی ہی نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ انسان کی فیلمی لائف، کام کاروبار ، سوشل انٹرایکشن، دولت و سرمایہ وغیرہ سب ہی کی نمود و نمائش اب سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ہو رہی ہے۔ آج میں نے کیا کھایا، کیا پہنا، کس سے ملاقات کی اور کن اہم لوگوں اور طاقتور حلقوں تک میری رسائی ہے، یہ سب کچھ اب سوشل میڈیا پر نشر ہوتا ہے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جعلی یعنی فیک لائف کا فتنہ اس وقت ہمارے معاشرے میں عروج پر ہے۔ فیک لائف کا مطلب یہ ہے کہ انسان بظاہر ایسا دکھائی دینے اور بننے کی کوشش کرے جو وہ دراصل ہے نہیں۔ اگر انسان کے پاس معمولی درجے کا علم ہو مگر وہ تکلف سے کتابوں سے جزئیات تلاش کر کے دوسروں کے سامنے اپنی علمیت کی دھاک بٹھانے کی کوشش کرے۔ بہت زیادہ مال و دولت نہیں ہے تو انسان دکھلاوا کر کے فیک انداز میں خود کو امیر کبیر ظاہر کرے۔ اسی طرح اگر کسی شخص کے پاس اثر و رسوخ والا عہدہ و حیثیت نہ بھی ہو تو وہ جھوٹ بول کر دوسروں کو یہ تاثر دے کہ میں بہت طاقتور اور پہنچ والا ہوں سوشل میڈیا کی فیک لائف کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انسان مشہور شخصیات سے ملاقات کی تصویریں شیئر کر کے اپنے حلقہ احباب میں شیخیاں بگھارے کہ میرے تو بہت اوپر تک تعلقات ہیں۔ کپڑے، جیولری وغیرہ بھی دوسروں سے مستعار لے کر یا فیک پہن کر ایک ایسا ماحول بنائے کہ دوسرے مرعوب ہو جائیں سوشل میڈیا کے دور میں یہ چلن اور بیماری ہمارے ہاں عام ہو گئی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شیخی بگھارنے والے کو پسند نہیں کیا ہے۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ - کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا کہ شیخی بگھارنا نہایت برا کام ہے۔ اسی طرح آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالی "جواظ " یعنی متکبر انداز میں شیخی بگھارنے والے کو پسند نہیں فرماتے کسی زمانے میں جھوٹ پر مبنی ڈینگیں مارنے اور شیخی بگھارنے والے کو معاشرے میں ذلیل اور کم تر سمجھا جاتا تھا مگر سوشل میڈیا کے دور میں یہ کام ایک دھندے اور صنعت کا روپ دھار چکا ہے۔ فیک لائف اس انداز فکر کا عملی نمونہ ہے۔ اللہ کے بندے اور بندیاں اپنی زندگی کو سچ اور قول سدید کے گرد استوار کرتے ہیں۔ عزت جھوٹ بول کر اپنا رعب اور دبدبہ قائم کرنے میں نہیں ہے بلکہ سچ بول کر پرسکون ہونے میں ہے۔ فیک لائف کے سہارے جینے والے کو ہر وقت یہی خطرہ رہتا ہے کہ کب میرا بھانڈا پھوٹ جائے گا۔ اسے یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ کس کو میں نے کیا کہانی سنا کر اپنا مطلب نکالا تھا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسا شخص کچھ عرصے بعد جھوٹا اور فراڈی مشہور ہو جاتا ہے۔ لوگ اس کے پیچھے اس کے بارے میں اور اس کے فیک لائف اسٹائل کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔ بسا اوقات تو فیک لائف اختیار کرنے والا شخص دنیا میں ہی بدنامی اور رسوائی کا سامنا کرتا ہے کہ جن لوگوں کو اس نے جھوٹے بھرم کی بنیاد پر گمراہ کیا ہوتا ہے وہ اپنے نقصان کی تلافی کے لیے انتقامی کارروائیوں سے بھی باز نہیں آتے۔ سوشل میڈیا کے استعمال اور اس کے ہماری حقیقی زندگی پر اثرات کے بارے میں بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ انسان بہت کمزور ہے اور اسے سمجھ ہی نہیں آتی اور وہ فیک لائف کے فتنے کا شکار ہو کر اس کے جال میں پھنس جاتا ہے۔ اس کا واحد حل یہی ہے کہ انسان رجوع الی اللہ کرے۔ اس سے پہلے کہ کوئی اسے رسوا کرے خود ہی سچ اور حقیقت پر مبنی زندگی کو اختیار کرلے۔ یقینا اللہ بہت کریم اور معاف کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے مسلسل دعا کریں کہ اللہ ہم سب کو شرمندگی، رسوائی سے بچائے اور ہمارے عیوب کی پردہ پوشی فرمائے۔ (ماہنامہ سلوک و احسان کراچی اکتوبر۔ ص: ۴۷ - ۴۸ ۔ ناقل : اسلامک ٹیوب پرو ایپ)

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

کتوں کے لیے قربانی نا کیجئے خدارا (یہ پوسٹ ہر مسلمان کے لیے پڑھنا لازم ھے)

کتوں کے لیے قربانی نا کیجئے خدارا (یہ پوسٹ ہر مسلمان کے لیے پڑھنا لازم ھے)

✍🏻یہ واقعہ ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے خاندان کا ھے ۔ ایک باپ جو کہ قربانی نہیں کر پا رہا اس کی روداد سنیے۔ بابا.... بابا .... ہمیں بھی گوشت ملے گا نا ؟ میں نے کہا : ہاں ہاں کیوں نہیں بِالکُل ملے گا۔۔ لیکن بابا ....پچھلی عید پر تو کسی نے بھی ہمیں گوشت نہیں دیا تھا، اب تو پورا سال ہو گیا ھےگوشت دیکھے ہوئے بھی۔۔۔ میں نے بڑے پیار سے سمجھایا :بیٹا اللہ نے ہمیں بھوکا تو نہیں رکھا، میری پیاری بیٹی، ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیۓ۔۔ میری بیٹی پھر بولنے لگی ۔۔ ساتھ والے انکل قربانی کے لئے بڑا جانور لے کر آئے ہیں، اور سامنے والے چاچا اقبال بھی تو بکرا لے کر آئےہیں، میں دل میں سوچ رہا تھا کہ ہم غریبوں کے لیے ہی تو قربانی کا گوشت ہوتا ہے، امیر لوگ تو سارا سال گوشت ہی کھاتے ہیں، یہی سوچتے ہوئے میں عید کی نماز کیلے مسجد کی طرف چل پڑا ۔ وہاں بھی مولوی صاحب بیان فرما رہے ہیں کہ قربانی میں غریب مسکین لوگوں کونہیں بھولنا چاہئے۔۔ ان کے بہت حقوق ہوتے ہیں۔۔۔۔ خیر میں بھی نماز ادا کر کےگھر پھنچ گیا، کوئی گھنٹہ بھر انتظار کرنے کے بعد میری بیٹی بولی۔۔ بابا ابھی تک گوشت نہیں آیا ، بڑی بہن رافیہ بولی ۔۔ چپ ہو جاٶ شازی بابا کو تنگ نہ کرو میں چپ چاپ دونوں کی باتیں سنتا رہا اور نظرانداز کرتا رہا ۔۔ کافی دیر کے بعد بھی جب کہیں سے گوشت نہیں آیا تو شازیہ کی ماں بولی۔ سنیۓ میں نے تو پیاز ٹماٹر بھی کاٹ دیۓہیں۔ لیکن کہیں سے بھی گوشت نہیں آیا، کہیں بھول تو نہیں گئے ہماری طرف گوشت بجھوانا۔۔۔۔ آپ خود جا کر مانگ لائیں، میں نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا کہ یہ کیا عجیب بات کر رہی ہے ۔ میں نے نرمی سے کہا ۔۔ دیکھو شازیہ کی ماں۔۔۔۔ تمہیں تو پتہ ھے آج تک ہم نےکبھی کسی سے مانگانہیں ، اللہ کوئی نہ کوئی سبب پیدا کرے گا۔۔ دوپہر گزرنے کے بعد شازیہ کے بار بار اصرار پر پہلے دوسری گلی میں ایک جاننے والے ڈاکٹر صاحب کے گھر گئے، بیٹی کا مایوسی سے بھرا چہرہ برداشت نہیں ہو رہا تھا ۔ اس لئیے مجبوراً اس کو ساتھ لے کر چل پڑا ۔۔۔ ڈاکٹر صاحب دروازے پر آئے تو میں بولا ۔۔ ۔ ڈاکٹر صاحب میں آپ کاپڑوسی ہوں کیا قربانی کا گوشت مل سکتاہے؟ یہ سننا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کا رنگ لال پیلا ہونے لگا، اور حقارت سے بولے پتہ نہیں کہاں کہاں سے آ جاتے ہیں گوشت مانگنے، تڑاخ سے دروازہ بند کر دیا ۔۔ توہین کے احساس سے میری آنکھوں میں آنسو آ گۓ۔۔ لیکن بیٹی کا دل نہ دکھے ،آنسووں کو زبردستی پلکوں میں روکنے کی کوشش کرنے لگا ۔۔ آخری امید اقبال چاچا ۔۔بو جھل قدموں سے چل پڑا ۔۔ ان کے سامنے بھی بیٹی کی خاطر گوشت کیلے دست سوال۔ اقبال چاچا نے گوشت کا سن کرعجیب سی نظروں سے دیکھا اور چلےگۓ۔ تھوڑی دیر بعد باھرآۓ تو شاپر دے کرجلدی سے اندر چلۓ گۓ۔ جیسے میں نے گوشت مانگ کر گناہ کر دیا ہو۔۔ گھر پہنچ کر دیکھا تو صرف ہڈیاں اور چربی ۔۔ خاموشی سے اٹھ کرکمرے میں چلے آیا اور بے آواز آنسو بہتے جارہے تھے ۔ بیوی آئی اور بولی کوئی بات نہیں۔۔ آپ غمگین نہ ہوں۔ میں چٹنی بنا لیتی ہوں۔ تھوڑی دیر بعد شازیہ کمرے میں آئی ۔ اور بولی بابا ہمیں گوشت نہںں کھانا ۔ میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے ۔۔ لیکن میں سمجھ گیا کہ بیٹی باپ کو دلاسہ دے رہی ہے ۔۔ بس یہ سننا تھا کہ میری آنکھوں سے آنسو گرنےلگے اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا لیکن رونے والا میں اکیلا نہیں تھا۔۔ دونوں بچیاں اور بیوی بھی آنسو بہا رہی تھی اتنے میں پڑوس والے اکرم کی آواز آئی ۔۔ جو سبزی کی ریڑھی لگاتا تھا۔۔ آزاد بھائی ، دروازہ کھولو، دروازہ کھولا۔۔ تو اکرم نے تین چار کلوگوشت کا شاپر پکڑا دیا، اور بولا ، گاٶں سے چھوٹا بھائی لایا ہے۔ اتنا ہم اکیلے نہیں کھا سکتے۔ یہ تم بھی کھا لینا خوشی اورتشکر کے احساس سےآنکھوں میں آنسو آ گۓ ۔ اور اکرم کے لیۓ دل سے دعا نکلنے لگی۔ گوشت کھا کر ابھی فارغ ھوۓ ہی تھے کہ بہت زور کا طوفان آیا ۔ بارش شروع ہو گئ۔ اسکے ساتھ ہی بجلی چلی گئی۔ دوسرے دن بھی بجلی نہی آئی۔ پتہ کیا تو معلوم ہوا ٹرانسفارمر جل گیا۔ تیسرے دن میری بیٹی شازیہ اور میں باہر آئے تو دیکھا کہ، اقبال چاچا اور ڈاکٹر صاحب بہت سا گوشت باہر پھینک رہے تھے ۔ جو بجلی نہ ہونےکی وجہ سے خراب ہو چکا تھا۔ اور اس پر کُتے جھپٹ رہے تھے۔ شازیہ بولی ، بابا ۔ کیا کُتوں کے لیۓ قربانی کی تھی ؟ وہ شازیہ کا چہرہ دیکھتے رہ گئے ۔ اقبال چاچا اور ڈاکٹر صاحب نے یہ سُن کر گردن جھکا لی۔ یہ صِرف تحریر ھی نہیں،گذشتہ چند سالوں میں قربانی کے موقع پر آنکھوں دیکھا حال ہے۔ خدارا احساس کریں غریب اور مسکین لوگوں کا جو آپ کے آس پاس ہی رہتے ہیں۔ منقول۔ انتخاب : اسلامک ٹیوب پرو ۔