خوددار عورت… لاوارث میت

فاعتبروا يا اولي الابصار سبق ہے میرا جسم میری مرضی والوں کے لئے مرضی بھی اسی کی تھی اور جسم بھی اسی کا تھا مگر سناٹے سے گونجتا کمرہ، بند دروازے کے پیچھے مہینوں سے خاموش پڑی لاش، اور آس پاس نہ کوئی آنکھ اشک بار، نہ کوئی ماتم، نہ کوئی دعا۔ بس دیواریں تھیں، جو چیخ چیخ کر اس عورت کی تنہائی کی گواہ تھیں، جو کبھی اپنی خودمختاری پر نازاں تھی، جس نے رشتوں کے ریشمی بندھنوں کو آزادی کی زنجیر سمجھ کر توڑ دیا، جو فیمینزم کے افیون سے مدہوش ہو کر اپنے خاندان، بھائی، باپ، اور سب سے بڑھ کر اپنے رب سے بھی روٹھ گئی تھی۔ "اداکارہ حمیرا اصغر" ایک خوبصورت چہرہ، ایک آزاد "عورت، ایک مشہور نام" لیکن کیا واقعی وہ کامیاب تھی؟ پولیس اہلکار جب اس کے بھائی کو فون کرتا ہے تو جواب ملتا ہے: "اس کے والد سے بات کریں" اور جب والد کو فون کیا جاتا ہے تو ایک باپ کی زبان سے نکلتا ہے: "ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں، ہم بہت پہلے اس سے ناطہ توڑ چکے، لاش ہے تو جیسے چاہو دفناؤ" فون بند ہو جاتا ہے، مگر سوال کھلا رہ جاتا ہے کہ وہ کون سی زندگی تھی جو باپ کے دل کو اتنا سخت کر گئی؟ وہ کون سا راستہ تھا جو بھائی کی غیرت کو خاموش کرا گیا؟ وہ کون سی سوچ تھی جس نے ایک جیتے جاگتے وجود کو مہینوں لاش بنا کر سڑنے کے لیے چھوڑ دیا؟ یہ محض ایک واقعہ نہیں، یہ فیمینزم کی وہ بھیانک تصویر ہے، جو اشتہارات میں خوشنما، تقاریر میں متاثرکن، اور سوشل میڈیا پر انقلابی لگتی ہے، مگر اندر سے کھوکھلی، تنہا اور اندھیرے سے لبریز ہوتی ہے۔ فیمینزم کا آغاز عورت کے حقوق سے ہوا، مگر انجام اس کی تنہائی پر ہو رہا ہے۔ فیمینزم نے عورت کو ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کے مقدس رشتوں سے نکال کر صرف "خود" بنا دیا اور یہی "خود" آخرکار اُسے اکیلا کر گیا۔ خاندان کا ادارہ، جسے صدیوں کی تہذیب نے پروان چڑھایا، جس میں قربانیاں، محبتیں، ناراضگیاں، مان، اور رشتہ داریوں کی حرارت موجود تھی، اسے آج کی عورت نے "زنجیر" سمجھ کر کاٹ دیا۔ اور جب وقت کی تیز دھوپ نے جلایا، تو کوئی سایہ دار درخت ساتھ نہ تھا۔ فیس بک کی دوستیں، انسٹاگرام کے فالورز، ٹوئٹر کی آزادی کے نعرے, سب خاموش تھے۔ باپ کا دروازہ بند تھا، بھائی کا دل پتھر ہو چکا تھا، اور ماں شاید برسوں پہلے رو رو کر مر چکی تھی۔ عجیب معاشرہ ہے یہ بھی، جہاں اگر بیٹی نافرمان ہو تو باپ ظالم کہلاتا ہے، اور اگر باپ لاتعلق ہو جائے تو بیٹی کی خودمختاری کا جشن منایا جاتا ہے۔ عورت جب گھر سے نکلے، تو "طاقتور" کہلاتی ہے، جب طلاق لے، تو "باہمت" بن جاتی ہے، جب رشتے توڑے، تو "بغاوت" نہیں بلکہ "خود شعوری" قرار پاتی ہے۔ اور جب مر جائے، تنہا، بوسیدہ لاش کی صورت، تو سارا معاشرہ خاموش تماشائی بن جاتا ہے۔ کاش حمیرا اصغر نے جانا ہوتا کہ فیمینزم، ماں کی گود جیسا تحفظ نہیں دے سکتا۔ کاش وہ سمجھ پاتی کہ باپ کی ڈانٹ، محبت کی ایک گونج ہوتی ہے، اور بھائی کی غیرت، عزت کی چادر ہوتی ہے۔ کاش وہ جان پاتی کہ مرد دشمنی کا نام عورت دوستی نہیں، بلکہ یہ فکری گمراہی ہے جو عورت کو اس کے رب، اس کے دین، اور اس کی فطرت سے کاٹ دیتی ہے۔ عورت مضبوط ضرور ہو، خودمختار بھی ہو، لیکن وہ اپنے اصل سے جُڑی رہے, وہ ماں کا پیار، باپ کی شفقت، بھائی کی غیرت، اور شوہر کی رفاقت کو بوجھ نہ سمجھے۔ ورنہ فیمینزم کی راہ میں جو منزل ہے، وہ تنہائی، بے رُخی، اور بے گور و کفن لاش ہے۔ حمیرا اصغر چلی گئی, لیکن فیمینزم کی دُھند میں گُم اور کتنی بیٹیاں ایسی ہی گم ہو رہی ہیں, بس ہمیں تب ہوش آتا ہے، جب تعفن زدہ لاش دیواروں سے سوال کرنے لگتی ہے۔۔۔ "آزادی چاہیے تھی نا؟ لے لو… مگر اب میرے پاس کوئی نہیں!"💔💔💔 ____📝📝📝____ منقول - انتخاب : اسلامک ٹیوب پرو ایپ ۔

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

ایک دینار کا فریب

ایک دینار کا فریب

ایک بادشاہ نے اپنے وزیر سے کہا کہ ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ میرے پاس دنیا جہان کی ہر راحت کا سامان ہے لیکن پھر بھی دل خوش نہیں ، لیکن میرے خادم کے پاس کچھ نہیں ، نہ مال و دولت ، نہ محلات و آسائشات ۔ مگر ہر وقت خوش و خرم رہتا ہے ۔ وزیر نے کہا کہ اس پر 99 کا قاعدہ جاری فرمائیں ۔ کیا مطلب 99 کے قاعدے کا ؟ وزیر نے کہا کہ رات 99 دینار ایک تھیلی میں ڈال کر اس کے دروازے پہ لٹکا دیں لیکن اوپر لکھ دیں کہ یہ 100 دینار میری طرف سے تمہیں ہدیہ ہے ۔ دروازے پہ آواز لگا کر واپس آجائیں ۔ پھر دن بھر دیکھیے کہ کیا ہوتا ہے ۔ چنانچہ بادشاہ نے ایسا ہی کر لیا۔ خادم باہر نکلا، خوشی سے تھیلی اٹھائی اور جلدی جلدی گنے لگا، پتہ چلا ایک دینار کم ہے ، دوبارہ گنتی کی ، مگر پھر بھی 99 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب دروازے کے آس پاس ڈھونڈ نے لگ گیا کہ شاید کہیں گر گیا ہو ، مگر کچھ نہ ملا، تھوڑی دیر بعد بیوی بچے بھی آگئے اور تلاش میں لگ گئے ، یوں پوری رات ایک دینار کی تلاش میں گزار دی صبح وہ کام پہ آیا لیکن چہرہ بجھا ہوا، پریشان ، نیند نہ ہونے کی وجہ سے طبیعت مضمحل اور بوجھل ، روایتی فرحت و انبساط غائب یہ دیکھ کر بادشاہ کو 99 کے قاعدے کا راز سمجھ آگیا ۔ وہ یہ کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ 99 نعمتوں کو بھول جاتے ہیں اور ایک مفقود نعمت کے حصول میں جٹ جاتے ہیں ، وہی ہر وقت ہماری سوچ و فکر کا محور اور اسی کیلئے تگ و دو اور محنت ، اس لیے بے شمار نعمتوں کے ہوتے بھی پریشان رہتے ہیں ، ہر حال میں اللہ کریم کا شکر ادا نہیں کرتے ، جو خوش رہنے کی شاہ کلید ہے۔ ___________📝📝📝___________ منقول۔ انتخاب : اِسلامک ٹیوب پرو ایپ۔