شیشے سے دیوار تک

ایک خاتون کہتی ہیں: ایک دن میں اپنے گھر کی صفائی کر رہی تھی، اتنے میں میرا بیٹا آیا اور شیشے سے ایک شاہکار (تحفہ) گرا دیا اور وہ ٹوٹ گیا۔ میں اس سے بہت ناراض تھی کیونکہ یہ بہت مہنگا تھا، میری ماں نے مجھے دیا تھا، میں اسے پسند کرتی تھی اور اسے رکھنا چاہتی تھی۔ میں نے غصے سے اسے بلایا اور کہا۔ (میرا رب ایسی دیوار گرائے جو تمہاری ہڈیاں توڑ دے) وہ خاتون کہتی ہیں: سال گزر گئے، میں اس پکار اس بدعا کو بھول گئی، مجھے اس کی پرواہ نہیں تھی اور نہ ہی مجھے معلوم تھا کہ وہ آسمان پر چڑھ گئی ہے! میرا بیٹا اپنے بھائیوں بہنوں کے ساتھ پلا بڑھا اور وہ میرے دل میں میرے بیٹوں میں سب سے زیادہ پیارا تھا۔ میں اس کو ہوا لگنے سے بھی ڈرتی تھی وہ میرے لیے اپنے بھائیوں اور بہنوں سے زیادہ نیک تھا۔ اس نے تعلیم حاصل کی، گریجویشن کیا، ملازمت حاصل کی، اور میں اس کے لیے بیوی تلاش کر رہی تھی۔ اس کے والد کی ایک پرانی عمارت تھی، اور وہ اسے گرا کر دوبارہ تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ میرا بیٹا اپنے والد کے ساتھ عمارت کی طرف گیا، مزدور منہدم کرنے کی تیاری کر رہے تھے، ادھر اپنے کام کے درمیان میرا بیٹا اپنے والد سے دور چلا گیا اور کارکن نے اسے نوٹس نہیں کیا تو دیوار اس پر گر گئی!! میرا بیٹا چیخا اور پھر اس کی آواز غائب ہوگئی۔ کارکن رک گئے اور سب پریشان اور خوف زدہ ہو گئے!! انہوں نے بڑی مشکل سے اس سے دیوار ہٹائی، ایمبولینس آئی، اس کا جسم لے جانے کے قابل بھی نہیں بچا تھا وہ شیشے کی طرح گر کر ٹوٹ چکا تھا، انہوں نے اسے بڑی مشکل سے اٹھایا اور انتہائی نگہداشت میں منتقل کیا!! اور جب اس کے والد نے مجھے خبرکی تو میں بے ہوش ہو گئی اور جب مجھے ہوش آیا تو گویا اللہ تعالیٰ نے میری آنکھوں کے سامنے وہ گھڑی بحال کر دی ہو جس میں میں نے بچپن میں کئی سال پہلے اس کے لیے بددعا کی تھی اور مجھے وہ بددعا یاد آ گئی۔ میں روتی رہی اور روتی رہی یہاں تک کہ میں دوبارہ ہوش کھو بیٹھی، جب ہسپتال میں مجھے افاقہ ہوا، تو میں نے اپنے بیٹے کو دیکھنے کے لیے کہا؟ میں نے اسے دیکھا، اور کاش میں نے اسے اس حالت میں نہ دیکھا ہوتا! ان لمحوں میں دل کی دھڑکن رک گئی اور میرے بیٹے نے آخری سانس لی۔ میں نے روتے ہوئے کہا: کاش وہ دوبارہ زندہ ہو جائے، گھر کے تمام فن پاروں کو توڑ دے، بس میں اسے نہ کھووں۔ کاش میں گونگی ہوجاتی اور اس کو بد دعا نہ دیتی۔ کاش کاش کاش، لیکن کاش لفظ کا وقت پورا ہو چکا تھا! ایک شخص عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ کے پاس اپنے بیٹے کی نافرمانی کی شکایت کرنے آیا!! ابن مبارک نے اس سے پوچھا: کیا تم نے اس کے لیے بددعا کی؟ اس نے کہا: ہاں اس نے کہا: جاؤ، تم نے ہی اسے خراب کر دیا ہے۔ _____📝📝📝_____ منقول ۔ انتخاب اسلامک ٹیوب پرو ایپ ۔

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

سچ کہو اور باقی رہو

سچ کہو اور باقی رہو

ایک بار ایک بادشاہ جوانوں کے لنگر خانے گیا ، صفائی ستھرائی چیک کی درست تھی، پھر اس نے پوچھا کہ جوانوں کے لیے کیا پکایا ہے ؟جواب ملا بتاؤں یعنی بینگن ۔بادشاہ سخت ناراض ہوا کہ جوانوں کے لیے اتنا گھٹیا کھانا کیوں پکایا گیا ہے ؟اس کے مشیر نے بینگن کی بُرائی میں زمین آسمان ایک کر دیے ، بہر کیف لنگر کمانڈر نے معذرت کی اور آئندہ سے بینگن نہ پکانے اور اچھا کھانا پکانے کا وعدہ کیا تو بادشاہ لنگر خانے سے رخصت ہو گیا ۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد بادشاہ کو دوبارہ سے جوانوں کے لنگر خانے جانے کا اتفاق ہوا۔. سوئے اتفاق اس روز بھی بینگن پکائے گئے تھے۔ بادشاہ نے بینگن کی تعریف کی . وہ ہی مشیر ساتھ تھا ، اس نے بینگن کی تعریف میں ممکنہ سے بھی آگے بینگن کے فوائد بیان کر دیے ۔گویا بینگن کے توڑ کی کوئی سبزی اور پکوان باقی نہ رہے ۔ لنگر کمانڈر خوش ہوا اور آگے سے بینگن کے برابر اور متواتر پکائے جانے کا وعدہ کیا ۔بادشاہ اس مشیر کی جانب مڑا اور کہنے لگا کہ اس دن میں نے بینگن کی بُرائی کی تو تم نے بینگن کی بُرائی میں کوئی کسر نہ چھوڑی ، آج جب کہ میں نے تعریف کی ہے تو تم نے بینگن کی تعریف میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ، کیوں ؟اس نے جواباً کہا حضور میں آپ کا غلام ہوں بینگن کا نہیں ۔یہ سن کر بادشاہ نے کہا تم جیسے جی حضوریے حق اور سچ کو سامنے نہیں آنے دیتے ، جس کے سبب صاحب اقتدار متکبر ہو جاتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں ان سے انصاف نہیں ہو پاتا۔ انصاف کا قتل ہی قوموں کے زوال کا سبب بنتا ہے ۔ پہلے تو وہ جی حضوریہ چپ رہا پھر کہنے لگا حضور جان کی امان پاؤں تو ایک عرض کروں ۔بادشاہ نے کہا : کہو کیا کہنا چاہتے ہو ؟حضور سچ اور حق کی کہنے والے ہمیشہ جان سے گئے ہیں۔ بادشاہ نے کہا! یاد رکھو سچ اور حق جان سے بڑھ کر قیمتی ہیں۔ مرنا تو ایک روز ہے ہی ، سچ کہتے مرو گے تو باقی رہو گے، ہاں جھوٹ کہنے یا اس پر درست کی مہر ثبت کرنے کی صورت میں بھی زندہ رہو گے لیکن لعنت اور پھٹکار اس زندگی کا مقدر بنی رہے گی ۔