حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کی دعوت __!!

حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمتہ اللہ علیہ کا مظفر نگر میں ایک تھانیدار معتقد تھا۔ ایک دن اس نے حضرت مولانا نانوتوی کی دعوت کی، مولانا نے دیکھا تھا کہ تھانیدار کی کمائی مشتبہ اور مشکوک ہے اس وجہ سے اس کی دعوت کو نامنظور فرما دیا ۔ تھانیدار نے دعوت قبول نہ کرنے کی وجہ معلوم کی تو حضرت نے فرمایا میں معذور ہوں۔ اس نے کہا کہ اگر آپ بیمار ہوں تو علاج کرادوں۔ حضرت نے فرمایا نہیں کوئی اور عذر ہے۔ اس نے کہا اگر جانے میں تکلیف ہو تو سواری کا انتظام کر دوں۔ حضرت نے فرمایا یہ مجبوری نہیں بلکہ دوسرا عذر ہے۔ اس نے پھر درخواست کی کہ کھانا آپ کے یہاں بھیج دوں۔ آپ نے انکار فرمایا اس نے عرض کیا میں خود حاضر ہوکر کھانا پیش کروں گا۔ حضرت نے صاف انکار فرما دیا۔ وہ تھانیدار ایک دم غصہ ہوگیا اور کہا کہ آپ نہ بزرگ ہیں اور نہ نیک کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے دعوت قبول کرو اور آپ قبول نہیں کرتے۔ اس پر مولانا نانوتوی نے فرمایا کہ جو عیوب تونے بیان کئے ہیں۔ ان سے زیادہ عیوب کا مرتکب اور مستحق ہوں ۔اس وقت تھانے دار کو ہوش آیا اور سوچا تو معلوم ہوا کہ حضرت میری دعوت میرے مال کے مشتبہ ہونے کی وجہ سے رد فرمارہے ہیں ۔اس نے ای دن سے تھانیداری چھوڑ دی۔ کچھ دنوں بعد پھر دعوت کی اور عرض کیا کہ: حضرت! اب میری اپنی جائیداد کی حلال کمائی ہے آپ کی دعوت کرتا ہوں‘ مولانا محمد قاسم صاحب نے دعوت منظور فرمانی اور اس سے فرمایا کہ ” ملازمت بھی کرو لیکن دیانتداری سے کام لو کیونکہ تھانیداری کرنا دیانت داری کے ساتھ تمام بھلائیوں سے بڑھ کر ہے کیونکہ محتسب کے درجہ میں تھانے دار ہوتا ہے۔“ ___________📝📝___________ منقول۔ انتخاب اسلامک ٹیوب پرو ایپ

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

علّامہ اِقبال اور جذبہ اطاعت رسول

علّامہ اِقبال اور جذبہ اطاعت رسول

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے سنت رسول کی پیروی کو اپنا شیوہ حیات بنالیا تھا۔ جوہر اقبال میں ایک عجیب اور بصیرت افروز واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ جس سے علامہ اقبال کے جذبہ شوق و اطاعت رسول کا اندازہ ہوتا ہے۔ لکھتے ہیں کہ پنجاب کے ایک دولت مند رئیس نے ایک قانونی مشورے کے لیے اقبال اور سر فضل حسین اور ایک دو مشہور قانون دان اصحاب کو اپنے ہاں بلایا، اور اپنی شاندار کوٹھی میں ان کے قیام کا انتظام کیا۔ رات کو جس وقت اقبال اپنے کمرے میں آرام کرنے کے لیے گئے تو ہر طرف عیش و تنعم کے سامان دیکھ کر، اور اپنے نیچے نہایت نرم اور قیمتی بستر پا کر معا ان کے دل میں یہ خیال آیا کہ جس رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتیوں کے صدقے میں آج ہم کو یہ مرتبے حاصل ہوئے ہیں، اس نے بوریے پر سوکر زندگی گزار دی تھی ۔ یہ خیال آنا تھا کہ آنسوؤں کی جھڑی بندھ گئی۔ اسی بستر پر لیٹنا ان کے لیے ناممکن ہو گیا۔ اٹھے اور برابر کے غسل خانے میں جا کر ایک کرسی پر بیٹھ گئے، اور مسلسل رونا شروع کر دیا۔ جب ذرا دل کو قرار آیا تو اپنے ملازم کو بلوا کر اپنا بستر کھلوایا ، اور ایک چار پائی اسی غسل خانے میں بچھوائی۔ اور جب تک وہاں مقیم رہے، غسل خانے ہی میں سوتے رہے۔ یہ وفات سے کئی برس پہلے کا واقعہ ہے۔ (محمد حسنین سید۔ جوہر اقبال - ص 39-40، مطبوعہ مکتبہ جامعہ دہلی 1938)(ماہنامہ صدائے اسلام/ستمبر/۲۰۲۴)