مولا! میرا نُور مجھے لوٹا دے!! (قسط ثانی)

بسم الله ؛ رَبِّ يَسِّرْ وَأَعِنْ! نوٹ : اس منشور کے مخاطَبین صرف علومِ شریعت کے طلبہ ہیں۔ علمِ شرعی کو اللہ تعالیٰ نے قولِ ثقیل قرار دیا ہے۔ یہ بہت بھاری شے ہے۔ ہر کسی کو یہ راس آتا ہے نہ ہر کوئی اس کا اہل ہوتا ہے۔ اس کا نور کل انسانیت کیلیے ہے، مگر اس نور کے معادن و مصادر چند مخصوص سینے ہیں۔ اس علم کا حق یہ ہے کہ اس کی ہیبت باقی رکھی جائے، اِسے رسوا نہ ہونے دیا جائے۔ اعمش نے جب شعبہ کو دیکھا کہ بعض ناقدروں کو حدیث پڑھا رہے ہیں تو فرمایا : ”تیرا برا ہو، تُو خنزیروں کے گلے میں موتی پرو رہا ہے؟!“ زمانہ جتنا نورِ نبوت سے دور ہوتا گیا، میراثِ نبوت پر وارداتیے بھی بڑھتے گئے۔ ایک روز مدینہ کے امام، ربیعہ بن عبدالرحمن رو دییے۔ کہنے لگے کہ عام چور اُچکوں سے زیادہ یہ وارداتیے جیل کے مستحق ہیں جو ناحق علم کی سرحدوں کو پَھاندتے ہیں۔ حالانکہ یہ وہ دور تھا جب عالم بولتا تھا تو اُس کا سامنا عالم سے ہی ہوتا تھا، اور خواص کی بات خواص میں رہ جاتی تھی۔ اب مگر عالم کی آزمائش یہ ہے کہ اس کے بہی خواہوں میں دوا فروش بھی ہے اور منجن فروش بھی، کتاب فروش بھی اور قلم فروش بھی، زمین فروش بھی اور ضمیر فروش بھی، مدرسے کا مہتمم بھی اور اسٹوڈیو کا منتظم بھی۔ ما أشدّ غربة العالِم !! سکرین آنے کے بعد یہ تمنا کرنا کہ حرماتِ علم کا تحفظ ہو سکے، محال ہے۔ بلکہ یہ کہنا بھی جرم ہے کہ خدارا علم، علم والوں کیلیے رہنے دو۔ بعض کوڑھ مغز دانشوران اس کو پاپائیت سے تعبیر کریں گے، تو بعض نازک اندام مفکرین تکبر سے۔ سو اب رسمِ دنیا اور موقع و دستور یہی ہے کہ منسوبینِ علم سے کی جانے والی خاص باتیں بھی سرِ دیوار کی جائیں۔ پس قصۂِ مختصر یہ ہے بھائیو، کہ بحیثیت طالب علم اس بات کو جتنی جلدی سمجھ لیں اتنا اچھا ہے، کہ اس عالَمِ رنگ و بُو میں آپ کے مقابل آنے والا ہر شخص آپ کا مقابل نہیں ہے۔ یہ سب انجینیر، ڈاکٹر، اسپیکر اور صحافی وغیرہ وہ عوام الناس ہیں جن کا شرعی واجب آپ کے آستانے پر اپنے مرض کی دوا لینے آنا ہے، مگر یہ بیچارے اپنے کلینک کھول کر بیٹھ گئے ہیں۔ لیکن آپ اپنی قدر سے واقف ہوں اور اس سے تنازل اختیار نہ کریں۔ یہ چند باتیں سمجھ آتی ہیں تو پلے سے باندھ لیں : ١) اعرف الحق تعرف أهله : جب طالب علم حق کو بعض شخصیات کے تناظر میں دیکھتا ہے تو لامحالہ اس کے ارمانوں کا خون ہو کر رہتا ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے بعد ہر بندہ معرّض للخطأ ہے۔ وہ پھسلے گا تو آپ بھی پھسل جائیں گے؟! لہذا حق کو جاننے کی کوشش کریں، حق والوں کو خود ہی پہچان لیں گے۔ عقیدہ پڑھیں، کتابیں کھولیں، علم کیلیے جوتے گِھسائیں، اور ہڈ حرامی چھوڑ دیں۔ ليهلك من هلك عن بينة ويحيى من حي عن بينة!! ورنہ آپ یہی سمجھتے رہ جائیں گے کہ ڈیبیٹ کو طریقۂِ سلف کے خلاف کہنا مدینہ یونیورسٹی والوں کی ایجاد ہے، اور بدعتی سے ہجر کتاب و سنت میں نہیں ہے، اور ہاتھی اُڑتا ہے، اور انسان پہلے بندر ہوتے تھے، اور حق اس طرف ہوتا ہے جس طرف مہنگا کیمرا ہو۔ وغیرہ وغیرہ۔ ٢) بين السنة ولا تخاصم عليها : اہلِ سنت کا منہج بیان کر دو اور جھگڑے سے باز رہو۔ محدث البانی کہا کرتے تھے: قل كلمتك وامشِ، حق بات کرو اور چلتے بنو۔ کس کس کو پورے آئیں گے؟ کس کس سے سینگ پھنسائیں گے؟ بکری آپ سے بہتر میں میں کر لیتی ہے، اور بیل آپ سے بہتر ٹکریں مار لیتا ہے؛ تو کیا بکری اور بیل کو منہج سکھانے بیٹھ جائیں گے؟! طالبِ علم جب چونچیں لڑانے کا عادی ہو جائے تو وہ اندھیروں میں جا پڑتا ہے، اس کا سفر رُک جاتا ہے، جو بات اللہ کیلیے کرنی ہوتی ہے وہ انتصارِ نفس کے معرکے میں بدل جاتی ہے۔ ٣) من جعل دينه غرضا للخصومات أكثر التنقل : جو دین کو جھگڑوں، اور روز روز کی تُو تکار کی روشنی میں سمجھتا ہو، وہ بے پیندا لوٹا ہوتا ہے۔ لوٹے نہ بنیں، مضبوط پیروں پر کھڑے ہوں۔ یہ دین تب بھی تھا جب فیسبک نہیں تھی۔ اس طالب علم پر افسوس ہے جو بحث و تکرار کے وقت پہلی صف میں ہو اور تعلیم و تعلم کے وقت نظر بھی نہ آئے۔ امام مالک رحمہ اللہ سے ایک دانشور نے کہا میں آپ سے مناظرہ کرنا چاہتا ہوں۔ میں جیتا تو آپ میرے موقف پر آ جانا، آپ جیتے تو میں آپ کی رائے اختیار کر لوں گا۔ امام صاحب نے کہا : کل تم سے بڑا دانشور آ کر ہم سے جیت گیا تو ہم اس کے پیچھے چل پڑیں گے؟! یہ کون سا دین ہے؟ اللہ کا دین تو ایک ہی ہے جس میں کوئی رنگ بازی نہیں! ٤) ما كان لله يبقى : یہ اصل الأصول اور سُلّم الوصول ہے۔ یہ اول بھی ہے اور آخر بھی، کہ اللہ کے ساتھ سچے ہو جائیں۔ پھر بھلے آپ کسی کا رد کریں یا دفاع۔ لاکھوں کے مجمعے سے خطاب کریں یا کسی گاؤں کی کچی مسجد میں بیٹھ کر نورانی قاعدے کی تعلیم دیں۔ کیونکہ یہ علم اللہ کے ساتھ معاملے کا نام ہے۔ رازی نے شہاب الدین غوری سے کہا تھا: لا سلطانك يبقى، ولا تلبيس الرازي، وإن مردنا إلى الله! سلطنت کام آئے گی نہ وِیوز، فقط اخلاص اور متابعت کا مول پڑے گا۔ ولتنظر نفس ما قدمت لغدٍ! (عبدالعزيز ناصر) ____________📝📝____________ منقول۔ انتخاب : اسلامک ٹیوب پرو ایپ۔

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

​دوہری اجرت کا راز

​دوہری اجرت کا راز

دفتر کے قریب فٹ پاتھ پر بیٹھے اس بوڑھے سے آتے جاتے جوتے پالش کروانا اس کا معمول تھا ، مگر عجیب بات جو میں گزشتہ کئی دنوں سے نوٹ کر رہا تھا وہ یہ تھی کے وہ ہر بار جو تا پالش کروانے کے بعد اس بزرگ سے الجھتا کہ پالش ٹھیک نہیں کی ، سو دوبارہ کرو ۔ ۔ ۔ اور حیرت کی بات یہ کہ دوبارہ پالش کروانے کا معاوضہ بھی دو بار ادا کرتا ، جبکہ جوتا وہ محنتی بزرگ پہلی بار بھی بہت اچھے سے چمکاتا ، میرے دوست کے اعتراض پر وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جوتے پھر سے پالش کر کے اپنائیت سے اس کے پاؤں میں پہناتا ، میں نے آج اپنے دوست سے اسکے اس فعل کی وجہ پوچھی تو وہ گویا ہوا : “جو شخص اس عمر میں محنت سے کما رہا ہو وہ بہت خود دار ہوتا ہے ، میں اسکی محنت کا ڈبل معاوضہ دینے کی خاطر جھوٹ موٹ کا نقص نکالتا ہوں تا کہ اسکی کچھ مدد ہو سکے " میں اپنے دوست کی سوچ سے متاثر ہوئے بغیر نارہ سکا ۔ ۔ ۔ آج دفتر سے واپسی پر میں اکیلا تھا ، فٹ پاتھ کے قریب سے گزرا تو دیکھا کہ اس بزرگ کی بوڑھی نگاہیں میرے ساتھ میرے دوست کو تلاش کر رہی تھیں ، میں پلٹ کر اسکے پاس گیا اور کہا : آج آپ میرے جوتے پالش کر دیں" پالش کیے ہوئے جوتے پاؤں میں ڈالتے وقت میں نے جیب سے دو روپے کا سکہ بوڑھے کی طرف بڑھایا تو وہ سکہ دیکھ کر بولا : بیٹا دو نہیں پانچ روپے معاوضہ لیتا ہوں پالش کا ! میں نے حیرت سے پوچھا : مگر میرے دوست سے تو آپ روز ایک بار پالش کے دو روپے لیتے ہیں جبکہ وہ ہمیشہ پہلی بار آپکی محنت پر اعتراض بھی کرتا ہے ! بزرگ نے مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا اور جواب دیا : میں جانتا ہوں تمہارا دوست پہلی بار اعتراض اس لئے کرتا ہے تاکہ وہ دوسری بار جوتا پالش کروا کر مجھے دوہری اجرت دے کر میری کچھ مدد کر سکے ، اسی لیے میں اس سے پہلی بار میں آدھی اجرت وصول کرتا ہوں ! بوڑھے کا جواب سن کر میں نے پانچ رویے اسکی ہتھیلی پر رکھتے ھوئے پحیرت بھری مسکراہٹ کیساتھ اسکی آنکھوں میں جھانکا ، جن میں خودداری کی چمک کے ساتھ ساتھ احساس کا رنگ بھی نمایاں تھا بیشک احساس ایک ایسا انجان رشتہ ہے جو احساس کی ڈور سے ہی جڑا ہوتا ہے _____________📝📝📝_____________ منقول۔ انتخاب : اسلامک ٹیوب پرو ایپ۔