
سیاست کے نام پر مذہب کا استعمال: AIMIM کا رجسٹریشن منسوخ کرنے کی درخواست مسترد، سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ
فیصلے کی تفصیل: 15 جولائی 2025 کو سپریم کورٹ کی دو رکنی بینچ، جس کی سربراہی جسٹس سوریہ کانت نے کی، نے AIMIM کے رجسٹریشن کو منسوخ کرنے کی درخواست پر سماعت سے انکار کر دیا۔ درخواست گزار، تروپتی نرسمہا مراری نے دعویٰ کیا تھا کہ AIMIM مذہبی بنیادوں پر ووٹ مانگتی ہے، جو سیکولرزم کے اصول کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ AIMIM کا دستور ہندوستان کے آئین سے متصادم نہیں ہے اور یہ اقلیتوں کے آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہے۔ جسٹس سوریہ کانت نے اپنے ریمارکس میں کہا: ’’ہندوستان کا آئین اقلیتوں کو کچھ مخصوص حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ AIMIM کا منشور ان حقوق کے تحفظ اور سماج کے پسماندہ طبقات کی معاشی اور تعلیمی ترقی کے لیے کام کرنے کی بات کرتا ہے۔ اس میں کوئی غیر آئینی بات نہیں۔‘‘ عدالت نے درخواست گزار کو مشورہ دیا کہ وہ کسی مخصوص جماعت یا فرد پر الزامات عائد کرنے کے بجائے، سیاسی نظام میں عمومی اصلاحات کے لیے نئی درخواست دائر کریں۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ اگر کوئی سیاسی جماعت آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے مقاصد بیان کرتی ہے تو اس پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ درخواست گزار کے دلائل: تروپتی نرسمہا مراری نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ AIMIM کا منشور اور سرگرمیاں سیکولرزم کے اصول کی کھلی خلاف ورزی ہیں، کیونکہ یہ جماعت مبینہ طور پر مذہبی جذبات کو ابھار کر ووٹ حاصل کرتی ہے۔ انہوں نے الیکشن کمیشن سے AIMIM کی رجسٹریشن منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ان کے وکیل، وشنو جین نے عدالت میں استدلال پیش کیا کہ AIMIM اپنے منشور میں مسلم کمیونٹی کے درمیان اسلامی تعلیمات کو فروغ دینے کی بات کرتی ہے، جو ایک سیاسی جماعت کے لیے نامناسب ہے۔ انہوں نے کہا: ’’اگر کوئی سیاسی جماعت صرف ایک مخصوص کمیونٹی کی وحدت کے لیے کام کرتی ہے، تو یہ سیکولرزم کے اصول کے منافی ہے۔ اگر میں ہندو نام سے کوئی جماعت رجسٹر کرانے جاؤں تو الیکشن کمیشن اسے مسترد کر دے گا۔‘‘ سپریم کورٹ کا جواب: جسٹس سوریہ کانت نے وشنو جین کے دلائل پر کہا کہ قدیم مذہبی گرنتھوں، جیسے کہ ویدوں، قرآن، یا دیگر مذہبی کتب کی تعلیمات پڑھانے یا ان پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ انہوں نے کہا: ’’اگر الیکشن کمیشن کسی گرنتھ یا تعلیمات پر اعتراض اٹھاتا ہے تو آپ مناسب فورم پر جا سکتے ہیں۔ قانون اس کا خیال رکھے گا۔ قدیم ادب یا گرنتھوں کے مطالعے پر کوئی قانونی پابندی نہیں ہے۔‘‘ عدالت نے وشنو جین سے کہا کہ وہ دہلی ہائی کورٹ کے 1989 کے ایک فیصلے کا حوالہ پڑھیں، جس میں سیاسی جماعتوں کے منشور سے متعلق رہنما خطوط دیے گئے ہیں۔ جسٹس کانت نے زور دیا کہ AIMIM کا منشور آئین کے دائرہ کار میں ہے اور اس کا مقصد معاشی اور تعلیمی طور پر پسماندہ طبقات کی فلاح ہے، جو کہ آئینی اصولوں کے مطابق ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ بعض سیاسی جماعتیں نسلی جذبات یا ذات پات پر انحصار کرتی ہیں، جو کہ سیکولرزم کے لیے اتنا ہی خطرناک ہے جتنا کہ مذہبی جذبات کا استعمال۔ انہوں نے کہا: ’’اگر آپ سیاسی نظام میں اصلاحات چاہتے ہیں تو ایک وسیع تر درخواست دائر کریں، جس میں کسی مخصوص جماعت کو نشانہ نہ بنایا جائے۔ عدالت اس پر غور کرے گی۔‘‘ فیصلے کے مضمرات: سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے AIMIM کو نہ صرف قانونی تحفظ فراہم کیا بلکہ سیاسی جماعتوں کے منشور اور ان کے آئینی حقوق کے بارے میں ایک اہم بحث کو بھی ہوا دی۔ ایک طرف، اس فیصلے سے یہ واضح ہوا کہ سیاسی جماعتیں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کر سکتی ہیں، بشرطیکہ وہ آئین کے دائرہ کار میں رہیں۔ دوسری طرف، اس نے سیاسی نظام میں مذہب اور ذات پات کے کردار پر ایک بڑی بحث چھیڑ دی۔ ایک ایکس پوسٹ میں کہا گیا: ’’سپریم کورٹ کا فیصلہ AIMIM کے لیے ایک بڑی فتح ہے، لیکن اس سے سیاسی جماعتوں کے لیے مذہبی جذبات کے استعمال پر واضح رہنما خطوط کی ضرورت بھی عیاں ہوتی ہے۔‘‘ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ سیاسی جماعتوں کے لیے ایک نئی راہ کھولتا ہے کہ وہ اپنے منشور میں سماجی اور معاشی اصلاحات پر توجہ دیں، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا مذہبی شناخت پر مبنی سیاست کو مکمل طور پر روکا جا سکتا ہے؟ نتیجہ: سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ نہ صرف AIMIM کے لیے ایک قانونی فتح ہے بلکہ ہندوستان کے سیکولر ڈھانچے اور اقلیتوں کے آئینی حقوق کے تحفظ کی ایک مضبوط عکاسی ہے۔ تاہم، اس نے سیاسی نظام میں مذہب اور ذات پات کے کردار پر ایک گہری بحث کو جنم دیا ہے۔ جیسا کہ جسٹس سوریہ کانت نے کہا: ’’ہمارا آئین ہر شہری کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ اس آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے سماج کی بہتری کے لیے کام کریں۔‘‘ یہ فیصلہ سیاسی جماعتوں، قانون دانوں، اور سماج کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ وہ سیکولرزم اور جمہوریت کے توازن کو کیسے برقرار رکھیں۔ درخواست گزار کو نئی درخواست دائر کرنے کی اجازت کے ساتھ، یہ معاملہ مستقبل میں مزید قانونی بحث کا موضوع بن سکتا ہے۔ ماخذ: دی ہندو: انڈین ایکسپریس: ٹائمز آف انڈیا: بار اینڈ بینچ: ایکس پوسٹس: