​​ایک قدیم سندھی عالم کا کلمۂ حکمت :

اِمام ابونصر فتح بن عبداللہ سندھیؒ دُوسری صدی ہجری کے اُن علماء میں سے ہیں جو سندھی نژاد تھے، اور سندھ میں مسلمانوں کے داخلے کے بعد مشرف باسلام ہوئے تھے ، اور مسلمان ہونے کے بعد تفسیر،حدیث،فقہ اور کلام کے مُسلَّم عالم مانے گئے، علامہ سمعانیؒ نے ان کا یہ واقعہ سند کے ساتھ نقل کیا ہے: عبداللہ بن حسین کہتے ہیں کہ ایک روز ہم ابونصر سندھی کے ساتھ دُھول اور کیچڑ میں اَٹی ہوئی زمین پر چلے جا رہے تھے، اُن کے بہت سے معتقدین بھی ساتھ تھے، ہم نے دیکھا کہ ایک عرب شہزادہ مدہوشی کی حالت میں زمین پر خاک اور کیچڑ میں لت پت پڑا ہے، اس نے ہماری طرف نظر اُٹھا کر دیکھا تو ابونصرؒ نے منہ قریب کر کے سونگھا، اس کے منہ سے شراب کی بدبو آرہی تھی ـ شہزادہ نے ابونصرؒ سےکہا: "او غلام! میں جس حالت میں پڑا ہوں تم دیکھ رہے ہو، لیکن تم ہو کہ اطمینان سے چلے جا رہے ہو،اور اتنے سارے لوگ تمہارے پیچھے پیچھے ہیں"؟ ابونصرؒ نے بے باکی سے جواب دیا: " شہزادے! جانتے ہو اس کی کیا وجہ ہے؟ بات یہ ہے کہ میں نے تمہارا آباء و اجداد ( صحابہ ؓ و تابعین ؒ ) کی پیروی شروع کردی ہے،اور تم میرے آباء و اجداد ( کافروں کے) نقشِ قدم پر چل پڑے ہو ـ" (الأنساب للسمعانیؒ ورق: ۳۱۳ ومعجم البلدان ج: ۳ ص: ۲۶۷، ماخوذ اَز فقہائے ہند، مرتبہ: محمد اسحاق بھٹی جلد: ۱ ص: ۸۰ و ۸۱) ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ کتاب : تراشے 📔 (صفحہ نمبر : ۵۷،۵۸ ) تالیف : مفتی محمد تقی عثمانی صاحب ناقل : اسلامک ٹیوب پرو ایپ

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

بادشاہ اور فقیر : ایک سبق آموز واقعہ

بادشاہ اور فقیر : ایک سبق آموز واقعہ

یہ اُس زمانے کی بات ہے جب دنیا میں بادشاہتیں قائم تھیں اور کئی کئی میل پر پھیلی ہوئی ریاستوں پر مختلف خاندانوں کی حکومت ہوا کرتی تھی ۔ اسی دور کے ایک بادشاہ پر قدرت مہربان ہوئی اور اس کے ایک عقل مند وزیر اور بہادر سپاہ سالار کی بدولت اس کی سلطنت وسیع ہوتی چلی گئی ۔ اس بادشاہ کے پڑوسی ممالک پہلے ہی اس کی فوجی طاقت سے مرعوب تھے اور اس کے مطیع و تابع فرمان تھے ۔ وہاں اسی بادشاہ کے نام کا سکہ چلتا تھا ۔ بادشاہ نے ان کی فوجی قوت اور وسائل کو بھی اپنے مفاد میں استعمال کیا اور دور تک پھیلے ہوئے کئی ممالک پر حملہ کر کے انھیں بھی فتح کر لیا تھا ۔ لیکن اتنی بڑے رقبے پر حکومت کرنے کے باوجود اس کی ہوس کم نہیں ہو رہی تھی ۔ وہ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں بھی مبتلا ہو چکا تھا اور یہ سوچتا تھا کہ دنیا پر حکم رانی اس کا حق ہے ۔ ہر قوم کو اس کی بادشاہی قبول کر لینی چاہیے ۔ یہ بادشاہ قسمت کا ایسا دھنی تھا کہ ہر سال ایک ملک فتح کرتا ۔ وہ مفتوح علاقوں میں اپنے نام کا سکہ جاری کر کے وہاں اپنی قوم سے کوئی حاکم مقرر کر دیتا اور پھر وہ وہاں کے لوگوں پر اپنا قانون لاگو کر کے نظام چلانے لگتا۔ لیکن ان مسلسل فتوحات کے بعد اسے عجیب سا اضطراب اور بے چینی رہنے لگی تھی ۔ یہ دراصل وہ حرص تھی جس نے اس کی راتوں کی نیند اور دن کا سکون چھین لیا تھا ۔ وہ راتوں کو اٹھ کر نئی مہمات کے منصوبے بناتا رہتا تھا ۔ وقت تیزی سے گزرتا رہا اور ایک مرتبہ ایسی ہی مہم پر بادشاہ نے اپنی فوج روانہ کی ۔ لیکن چند ہفتوں بعد قاصد خبر لے کر آیا کہ بادشاہ کی فوج کو ناکامی ہوئی ہے اور دشمن اس پر غالب آگیا ہے ۔ کئی سال کے دوران مسلسل فتوحات نے بادشاہ کا دماغ خراب کر دیا تھا۔ وہ شکست کا لفظ گو یا فراموش کر بیٹھا تھا ۔ اس نے یہ سنا تو غضب ناک ہو گیا ۔ اس نے مزید لشکر تیار کر کے خود اس ملک کی جانب روانہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ بادشاہ تیزی سے صحرا، پہاڑ، دریا عبور کرتا ہوا اس ملک کی سرحد پر پہنچا جہاں اس کا بھیجا ہوا لشکر ناکام ہو گیا تھا۔ جنگ شروع ہوئی اور مخالف بادشاہ کی فوج جس کا ساتھ اس کے پڑوسی ممالک بھی دے رہے تھے ، انھوں نے ایک مرتبہ پھر حملہ آوروں کو ڈھیر کر دیا اور بادشاہ کو نامراد لوٹنا پڑا۔ یہ شکست اس سے ہضم نہیں ہو رہی تھی ۔ اس ناکام فوجی مہم سے واپسی پر بادشاہ بہت رنجیدہ اور پریشان تھا۔ ایک روز وہ اپنی بیوی سے باتیں کر رہا تھا جس نے کہا کہ وہ ایک بزرگ کو جانتی ہے جس کی دعا سے وہ دوبارہ میدانِ جنگ میں کام یاب ہو سکتا ہے ۔ بادشاہ نے اس بزرگ کو دربار میں طلب کیا ۔ مگر بزرگ نے آنے سے انکار کر دیا اور کہلوا بھیجا کہ جسے کام ہے وہ مجھ سے میری کٹیا میں آکر خود ملے ۔ قاصد نے بادشاہ کو بزرگ کی یہ بات بتائی تو بادشاہ برہم ہو گیا ۔ مگر اس کی بیوی نے سمجھایا کہ وہ بہت پہنچے ہوئے ہیں اور ایسے لوگوں کا احترام کرنا چاہیے ۔ ایک روز بادشاہ اپنے چند مصاحبوں کو لے کر فقیر کی کٹیا پر حاضر ہو گیا۔ سلام دعا کے بعد اس نے اپنا مدعا بیان کیا ۔ بزرگ نے اس کی بات سنی اور کہا کہ میں تجھے حکومت اور قومیں فتح کرنے کا کوئی گر تو نہیں بتا سکتا، مگر ایک ایسی بات ضرور تجھ تک پہنچا دینا چاہتا ہوں جس میں سراسر تیری فلاح اور بھلائی ہے ۔ بادشاہ کو غصہ تو بہت آیا مگر اس پر فقیر کی بے نیازی اور رعب قائم ہو چکا تھا ۔ اس نے سوالیہ نظروں سے دیکھا ، تو بزرگ نے کہا ، " اللہ کا ایک بندہ آدھی روٹی کھا لیتا ہے اور آدھی دوسرے بھوکے شخص کو دے دیتا ہے ، مگر ایک بادشاہ کا یہ حال ہوتا ہے کہ اگر دنیا کے بڑے حصے پر قبضہ کر لے تب بھی اس کو باقی دنیا پر قبضہ کرنے کی فکر سوار رہتی ہے تجھے چاہیے کہ جو مل گیا ہے اس پر اکتفا کر اور اگر دل کو ہوس سے پاک کرنا ہے تو جو کچھ تیری ضرورت سے زائد ہے اسے تقسیم کر دے ۔ یہ کہہ کر بزرگ نے بادشاہ کو کٹیا سے نکل جانے کا اشارہ کیا اور بادشاہ محل لوٹ گیا ۔ لیکن وہ جان گیا تھا کہ یہ بے اطمینانی اور اضطراب اسی وقت ختم ہو سکتا۔ جب وہ حرص چھوڑ دے اور خواہشات کو ترک کر کے قانع ہو جائے ۔