بے مثال سادگی اور تواضع

حضرت مولنا سید اصغر حسین رحمہ اللہ تعالی ( جو اپنے ملنے والوں میں حضرت میاں صاحب کے نام سے مشہور تھے ) دار العلوم دیوبند کے اساتذہ کرام میں سے تھے جو شہرت اور نام و نمود سے ہمیشہ کوسوں دور رہے، زندگی بھر اسلامی علوم کی تدریس کی خدمت انجام دی، اور ہزارہا طلباء کو اپنے علم سے سیراب کیا، آج برصغیر پاک و ہند کے نامور علماء کرام دیوبند میں شاید کوئی نہ ہو جو ان کا بالواسطہ یا بلا واسطہ شاگرد نہ ہو۔ انہوں نے متعدد چھوٹی بڑی تصانیف بھی چھوڑی ہیں، موضوعات بھی اچھوتے اور زبان بھی اتنی شگفتہ کہ آج سے سو سال کی تحریروں میں ایسی گفتگو کم ملتی ہے۔ علم و فضل کے بلند مقام کے باوجود سادگی تواضع اور مسکنت کا عالم یہ تھا کہ دیکھنے والا ان کے بلند مقام کو پہچان ہی نہیں سکتا تھا وہ دیو بند (ضلع سہارنپور ) کے ایک چھوٹے سے محلے میں مقیم تھے ، اور کچے مکان میں رہتے تھے۔ ہر سال جب برسات کا موسم آتا تو یہ کچا مکان جگہ جگہ سے گر جاتا ، اور برسات گزرنے کے بعد کافی وقت اور پیسے اس کی مرمت پر خرچ کرنا پڑتا تھا۔ حضرت مولنا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ حضرت میاں صاحب کے خاص شاگرد تھے، لیکن خصوصی تعلق کی بناء پر حضرت نے انہیں اپنے آپ سے بہت بے تکلف بھی بنایا ہوا تھا، ایک دن انہوں نے حضرت میاں صاحب سے کہا کہ آپ کو ہر سال اپنے مکان کی مرمت کرانی پڑتی ہے، جس میں پریشانی بھی ہوتی ہے، وقت بھی لگتا ہے، اور خرچ بھی خاصا ہو جاتا ہے اگر آپ ایک مرتبہ مکان کو پکا بنوالیں تو اس روز روز کی پریشانی سے نجات مل جائے۔ حضرت میاں صاحب کی طبیعت میں ظرافت بھی بہت تھی ، انہوں نے مفتی صاحب کی یہ تجویز سن کر شروع میں بڑی تعریف اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: واہ مفتی صاحب آپ نے کیسی عقل کی بات کہی، ہم نے ساری عمر گزار دی، بوڑھے ہو گئے اور اب تک ہماری عقل میں یہ بات نہیں آئی۔ مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت میاں صاحب نے یہ بات اتنی مرتبہ فرمائی کہ میں شرم سے پانی پانی ہو گیا، لیکن بالآخر میں نے عرض کیا کہ حضرت میرا مقصد تو وہ حکمت معلوم کرنا تھا جس کی وجہ سے آپ نے مالی استطاعت کے باوجود اب تک مکان کو پکا نہیں بنوایا، اب مجھے مزید شرمندہ کرنے کے بجائے حقیقی وجہ بیان فرما دیجیے۔ حضرت میاں صاحب شروع میں ٹالتے رہے، لیکن جب والد صاحب نے زیادہ اصرار کیا تو مفتی صاحب کا ہاتھ پکڑ کر مکان کے دروازے تک لے آئے اور فرمایا دیکھو! اس گلی کے دائیں بائیں دونوں طرف دیکھو، گلی کے اس سرے سے اُس سرے تک کیا کوئی مکان پکا نظر آتا ہے؟ مفتی صاحب نے فرمایا نہیں۔اس پر میاں صاحب نے فرمایا کہ بتاؤ جب میرے سارے پڑوسیوں کے مکان کچے ہیں، تو پوری گلی میں تنہا میں اپنا مکان پکا بنا کر کیا اچھا لگوں گا ؟ اور اتنی استطاعت مجھ میں نہیں کہ میں اپنے سارے پڑوسیوں کے مکانات پکے بنوا سکوں، اس لیے میں اپنا مکان بھی پکا نہیں بنواتا کیوں کہ اپنے پڑوسیوں کے مقابلہ میں اپنی کوئی امتیازی شان بنانا مجھے اچھا نہیں لگتا۔ ____📝📝📝____ کتاب : ماہنامہ علم و عمل لاہور (مئی ۔ ۲۰۲۵)۔ صفحہ نمبر : ۶ ۔ انتخاب : اسلامک ٹیوب پرو ایپ ۔

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

جو دوسروں کیلئے گڑھا کھودتے ہیں (فقہی پہلی)

جو دوسروں کیلئے گڑھا کھودتے ہیں (فقہی پہلی)

دو عورتیں قاضی ابن ابی لیلی کی عدالت میں پہنچ گئیں،یہ اپنے زمانے کے مشہور و معروف قاضی تھے. قاضی نے پوچھا تم دونوں میں سے کس نے بات پہلے کرنی ہے؟ ان میں سے بڑھی عمر والی خاتون نے دوسری سے کہا تم اپنی بات قاضی صاحب کے آگے رکھو. وہ کہنے لگی قاضی صاحب یہ میری پھوپھی ہے میں اسے امی کہتی ہوں چونکہ میرے والد کے انتقال کے بعد اسی نے میری پرورش کی ہے یہاں تک کہ میں جوان ہوگئی. قاضی نے پوچھا اس کے بعد ؟ وہ کہنے لگی پھر میرے چچا کے بیٹے نے منگنی کا پیغام بھیجا انہوں نے ان سے میری شادی کر دی،میری شادی کو کئی سال گزر گئے ازدواجی زندگی خوب گزر رہی تھی ایک دن میری یہ پھوپھی میرے گھر آئی اور میرے شوہر کو اپنی بیٹی سے دوسری شادی کی آفر کرلی ساتھ یہ شرط رکھ لی کہ پہلی بیوی(یعنی میں) کا معاملہ پھوپھی کے ہاتھ میں سونپ دے،میرے شوہر نے کنواری دوشیزہ سے شادی کے چکر میں شرط مان لی میرے شوہر کی دوسری شادی ہوئی رات کو میری پھوپھی میرے پاس آئی اور مجھ سے کہا تمہارے شوہر کے ساتھ میں نے اپنی بیٹی بیاہ دی ہے تمہارا شوہر نے تمہارا معاملہ میرے ہاتھ سونپ دیا ہے میں تجھے تیرے شوہر کی وکالت کرتے ہوئے طلاق دیتی ہوں. جج صاحب میری طلاق ہوگئی. کچھ عرصے بعد میری پھوپھی کا شوہر سفر سے تھکے ہارے پہنچ گیا وہ ایک شاعر اور حسن پرست انسان تھے میں بن سنور کر اس کے آگے بیٹھ گئی اور ان سے کہا کیا آپ مجھ سے شادی کریں گے؟ اسکی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا اس نے فوری ہاں کرلی،میں نے ان کے سامنے شرط رکھ لی کہ آپ کی پہلی بیوی(یعنی میری پھوپھی) کا معاملہ میرے ہاتھ سونپ دیں اس نے ایسا ہی کیا میں نے وکالت کا حق استعمال کرتے ہوئے پھوپھی کو طلاق دے ڈالی اور پھوپھی کے سابقہ شوہر سے شادی کرلی. قاضی حیرت سے پھر ؟ وہ کہنے لگی قاضی صاحب کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی. کچھ عرصہ بعد میرے اس شاعر شوہر کا انتقال ہوا میری یہ پھوپھی وراثت کا مطالبہ کرتے پہنچ گئی میں نے ان سے کہا کہ میرے شوہر نے تمہیں اپنی زندگی میں طلاق دی تھی اب وراثت میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ہے، جھگڑا طول پکڑا اس دوران میری عدت بھی گزر گئی ایک دن میری یہ پھوپھی اپنی بیٹی اور داماد(میرا سابقہ شوہر) کو لیکر میرے گھر آئی اور وراثت کے جھگڑے میں میرے اسی سابق شوہر کو ثالث بنایا اس نے مجھے کئی سالوں بعد دیکھا تھا مرد اپنی پہلی محبت نہیں بھولتا ہے چنانچہ مجھ سے یوں مل کر اس کی پہلی محبت نے انگڑائی لی میں نے ان سے کہا کیا پھر مجھ سے شادی کروگے؟ اس نے ہاں کرلی میں نے ان کے سامنے شرط رکھ لی کہ اپنی پہلی بیوی(میری پھوپھی کی بیٹی) کا معاملہ میرے ہاتھ میں دیں،اس نے ایسا ہی کیا. میں نے اپنے سابق شوہر سے شادی کرلی اور اس کی بیوی کو شوہر کی وکالت کرتے ہوئے طلاق دے دی. قاضی ابن ابی لیلی سر پکڑ کر بیٹھ گئے پھر پوچھا کہ اس کیس میں اب مسئلہ کیا ہے؟ میری پھوپھی کہنے لگی : قاضی صاحب کیا یہ حرام نہیں کہ میں اور میری بیٹی دونوں کی یہ لڑکی طلاق کروا چکی پھر میرا شوہر اور میری بیٹی کا شوہر بھی لے اڑی اسی پر بس نہیں دونوں شوہروں کی وراثت بھی اپنے نام کرلیا۔ قاضی ابن ابی لیلی کہنے لگے: مجھے تو اس کیس میں حرام کہیں نظر نہیں آیا،طلاق بھی جائز ہے،وکالت بھی جائز ہے،طلاق کے بعد بیوی سابقہ شوہر کے پاس دوبارہ جاسکتی ہے بشرطیکہ درمیان میں کسی اور سے اس کی شادی ہو کر طلاق یا شوہر فوت ہوا ہو تمہاری کہانی میں بھی ایسا ہی ہوا ہے. اس کے بعد قاضی نے خلیفہ منصور کو یہ واقعہ سنایا خلیفہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے اور کہا کہ جو کوئی اپنے بھائی کیلئے گڑھا کھودے گا خود اس گڑھے میں گرے گا یہ بڑھیا تو گڑھے کی بجائے گہرے سمندر میں گر گئی. (كتاب :جمع الجواهر في الحُصري) ____________📝📝____________ منقول۔ انتخاب : اسلامک ٹیوب پرو ایپ ۔