ماہِ رمضان کے معاشرتی فوائد

ماه رمضان المبارک مسلمانوں کے لیے محض ایک : عبادتی مہینہ نہیں بلکہ یہ ایک ایسا مہینہ ہے جو نہ صرف فرد کی روحانی تربیت کرتا ہے بلکہ معاشرتی زندگی پر گہرے اور مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ یہ مہینہ ایک ایسا موقع فراہم کرتا ہے جہاں انسان ذاتی اصلاح کے ساتھ ساتھ معاشرتی بہبود کے لیے عملی اقدامات اٹھاتا ہے۔ رمضان المبارک کے معاشرتی فوائد درج ذیل ہیں : برابری و مساوات کا فروغ: رمضان المبارک کا سب سے نمایاں پہلو مساوات و برابری کا درس ہے۔ روزے کی حالت میں امیر وغریب، بادشاہ و فقیر سب ایک جیسا محسوس کرتے ہیں۔ بھوک اور پیاس کا تجربہ ہر انسان کو دوسروں کے حالات سے آگاہی دیتا ہے اور معاشرتی تفاوت کو ختم کرنے میں مدد دیتا ہے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، ترجمہ: اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔ (سورۃ البقرۃ، آیت:183) یہ پرہیزگاری انسان کو دوسروں کی مدد کے لیے آمادہ کرتی ہے۔ صدقہ وخیرات کی ترغیب: رمضان المبارک صدقہ و خیرات کے لیے ایک بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔ مسلمان اس مہینہ میں دل کھول کر ز کوۃ، صدقہ و خیرات دیتے ہیں جو کہ غربت کے خاتمے اور محتاجوں کی مدد کے لیے نہایت اہم ہے۔ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی روزے دار کو افطار کروائے اسے روزے دار کے برابر اجر ملے گا۔ (ترندی: 807 ، اسنادہ حسن صحیح ) یہ روایت معاشرتی ہمدردی اور سخاوت کو فروغ دیتی ہے۔ اجتماعی عبادات اور اتحاد: رمضان المبارک کے مہینہ میں مساجد میں نمازیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے، خصوصاً تراویح کی نماز میں لوگ بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں۔ یہ اجتماعی عبادات مسلمانوں کے درمیان اتحاد، بھائی چارے اور محبت کو بڑھاتی ہیں۔ اخلاقی اصلاح و تحمل کا درس: رمضان المبارک میں روزہ دار کو اپنی زبان، ہاتھ اور دل کو گناہوں سے محفوظ رکھنا ہوتا ہے۔ یہ تربیت معاشرتی تعلقات میں نرمی، صبر و برداشت کو فروغ دیتی ہے۔ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ترجمہ: روزہ صرف کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں بلکہ جھوٹ فحش باتوں اور گناہوں سے بچنے کا نام ہے۔ (سنن ابن ماجہ :1690 ، اسنادہ صحیح) یہ تعلیم معاشرتی رویوں کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ خاندانی تعلقات کا استحکام: رمضان المبارک کے دوران خاندان کے افراد سحر و افطار میں اکھٹے ہوتے ہیں۔ یہ وقت ایک ساتھ مل بیٹھنے، بات چیت کرنے اور رشتوں کو مضبوط بنانے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔ ماہ رمضان المبارک کے یہ معاشرتی فوائد ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات میں دین اور دنیا دونوں کی بھلائی کا پیغام موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائیں آمین ثم آمین۔ ____________📝📝📝____________ ماہنامہ : علم و عمل لاہور (مارچ) صفحہ نمبر: ۱۹ انتخاب : اسلامک ٹیوب پرو ایپ

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

قابلِ رشک واقعہ

قابلِ رشک واقعہ

ایک ترک مسلمان مسجد نبوی شریف کے احاطے میں کھڑے ہوکر اپنا آنکھوں دیکھا واقعہ یوں بیان کرتا ہے میں مسجد نبوی میں کھڑا دیکھ رہا تھا کہ چار پولیس والیں کسی کا انتظار کر رہے ہیں پھر ایک شخص نمودار ہوا تو پولیس والوں نے بھاگ کر اسے قابو کر لیا۔ اور اس کے ہاتھ جکڑ لئے نوجوان نے کہا مجھے دعا اور توسل کی اجازت دے دو میری بات سن لو میں کوئی بھکاری نہیں ہوں اور نہ ہی کوئی چور ہوں پھر وہ جوان چیخنے لگا میں نے اسے دیکھا تو ایسے لگا جیسے میں اسے جانتا ہوں۔ میں بتاتا ہوں کہ میں نے اسے کیسے پہچانا دراصل میں نے اسے کتنی ہی مرتبہ بارگاہ رسالت میں روتے ہوئے دیکھا تھا۔ یہ ایک البانوی نوجوان تھا اس کی عمر ۳۵ یا ۳۶ سال کے درمیان تھی اس کے سنہری بال اور ہلکی سی داڑھی تھی میں نے پولیس والوں سے کہا اسکا کوئی جرم نہیں ہے  تو تم اس کے ساتھ ایسا کیوں کر رہے ہو؟ آخر کیا الزام ہے اس پر؟ انہوں نے کہا : تو پیچھے ہٹ اِس معاملے میں بولنے کا تجھے کوئی حق نہیں لیکن میں نے پھر سے کہا آخر اس کا تمہارے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ کیا اس نے کوئی چوری کی ہے؟ انہوں نے کہا یہ بندہ ۶ سال سے اِدھر مدینے شریف میں رہ رہا ہے ، لیکن اس کا یہ قیام غیر قانونی ہے ہم اسے پکڑ کر واپس اس کے ملک اسے بھیجنا چاہتے ہیں، لیکن وہ ہر بار ایک ہی چال سے بھاگ جاتا ہے اور جا کر روضہ رسول میں پناہ لے لیتا ہے ہم اسے اندر جا کر گرفتار نہیں کرنا چاہتے تھے۔ میں نے پوچھا تو اب اس کیساتھ کیا کرو گے؟ کہنے لگے: ہم اسے پکڑ کر جہاز پر بٹھائیں گے اور واپس البانیا بھیج دیں گے نوجوان مسلسل روئے جا رہا تھا اور کہہ رہا تھا کیا ہو جائے گا اگر تم مجھے چھوڑ دوں گے تو؟ دیکھو میں کوئی چور نہیں ہوں میں کسی سے بھیک نہیں مانگتا۔ میں تو ادھر بس محبتِ رسول میں رہ رہا ہوں۔ پولیس والوں نے کہا نہیں، ایسا جائز نہیں ہے نوجوان نے کہا۔ اچھا مجھے ذرا آرام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک عرض کر لینے دو پھر نوجوان نے اپنا منہ گنبد خضراء کی طرف کر لیا. پولیس والوں نے کہا چل کہہ جو کہنا ہے تو نوجوان نے گنبد خضراء کی طرف دیکھا اور جو کچھ عربی میں کہا ، میں نے سمجھ لیا وہ نوجوان کہہ رہا تھا یا رسول اللہ کیا همارے درمیان اتفاق نہیں ہوا تھا؟ کیا میں نے اپنے ماں باپ کو نہیں چھوڑا؟ کیا اپنی دکان بند کر کے اپنا گھر بار نہیں چھوڑا؟ اور یہ عہد کر کے یہاں نہیں آیا تھا کہ آپ کے جواررحمت میں رہا کروں گا ؟ حضور! اب دیکھ لیجیئے یہ مجھے ایسا کرنے سے منع کر رہے ہیں۔ یا رسول اللہﷺ آپ مداخلت کیوں نہیں فرماتے يارسول اللہ ﷺآپ مداخلت کیوں نہیں فرماتے۔ اتنے میں نوجوان بے حال ہونے لگا تو پولیس والوں نے ذرا ڈھیل دی اور نوجوان نیچے گر گیا ایک پولیس والے نے اسے ٹھڈا مارتے ہوئے کہا او دھوکے باز اٹھ لیکن نوجوان نے کوئی رَدِ عمل ظاہر نہ کیا۔ میں نے پولیس والوں سے کہا یہ نہیں بھاگے گا ، تم حمامات سے پانی لاؤ اور اس کے چہرے پر ڈالو لیکن نوجوان کوئی حرکت نہیں کر رھا تھا ایک پولیس والے نے کہا اسے دیکھو تو سہی کہیں یہ سچ مچ مر ہی نا گیا ہو۔ دوسرا پولیس والا کہنے لگا اسے ہم نے کون سی ایسی ضرب لگائی ہے ، جس سے یہ مرجائے۔ پھر انہوں نے ایمبولینس کو بلایا۔ ادھر سامنے والے سات نمبر گیٹ سے ایک ایمبولینس لے آئے انہوں نے نوجوان کی شہ رگ پر ہاتھ رکھ کر حرکت نوٹ کی اور نبض چیک کی تو کہنے لگے اسے تو مرے ہوئے ۱۵ منٹ گزر چکے ہیں. اب پولیس والے جیسے مجرم ہوں۔ نیچے بیٹھ گئے اور رونے لگے وہ منظر بھی دیکھنے والا تھا ان میں سے ایک تو اپنے دونوں زانوؤں پر ہاتھ مارتےھوئے کہتا تھا۔ ہائے ہمارے ہاتھ کیوں نہ ٹوٹ گئے۔ کاش ہمیں معلوم ہوتا کہ اسے رسول اللہ سے اتنی شدید محبت ہے۔ ہائے ہمارے ہاتھ کیوں نہ ٹوٹ گئے۔ اسکے بعد ایمبولینس والوں نے اسے وہاں سے اٹھا لیا، اور جنت البقیع کی طرف تجہیز و تکفین والے حصے میں لے گئےغسل کے وقت میں بھی وہیں موجود تھا میں انہیں کہتا تھا ، مجھے بھی ہاتھ لگانے دو، مجھے بھی اسکی چارپائی کو اٹھانے دو جب جنازہ تیار ہو کر نماز کے لئے جانے لگا تو پولیس والوں نے مجھے کہا کہ ہم نے جتنا گناہ اٹھایا ہے۔ بس اتنا کافی ہے اسے ہمارے سوا اور کوئی نہیں اٹھائے گا۔ شاید اسی طرح ہمیں آخرت میں کچھ رعایت مل جائے۔ میرے سامنے ہی وہ نوجوان بار بار کہ رہا تھا کہ یا رسول اللہ آپ مداخلت کیوں نہیں فرما رہے؟ دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مداخلت فرمادی اور ملک الموت نے اپنا فریضہ ادا کر کے اسے آپ تک ہمیشہ کیلئے پہنچا دیا۔ اللہ ہمیں اپنے حبیب ﷺ کی ویسی ہی محبت عطا فرمائے جيسى اس البانی نوجوان کو عطا فرمائی تھی. آمین