
لاس اینجلس میں ہنگامہ آرائی اور لوٹ مار، سڑکوں پر آگ و توڑ پھوڑ، میئر نے کرفیو نافذ کردیا
لاس اینجلس: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دوسرے دور صدارت میں غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف سخت پالیسی اپنائی، جس کے نتیجے میں لاس اینجلس میں چار دن سے جاری پرتشدد مظاہروں نے شہر کو میدان جنگ بنا دیا۔ ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف مظاہرین نے سڑکوں پر گاڑیاں اور ٹائر نذر آتش کیے، جبکہ دکانیں لوٹ لی گئیں۔ میئر نے حالات کنٹرول کرنے کے لیے کرفیو نافذ کردیا۔ مظاہروں کی شدت ٹرمپ نے غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیا، جس کے تحت امیگریشن اینڈ کسٹمز ڈیپارٹمنٹ نے جمعے کو لاس اینجلس میں چھاپے مار کر 118 افراد کو حراست میں لیا۔ اس کے بعد سے شہر میں مظاہرے شدت اختیار کر گئے۔ مظاہرین نے ہائی ویز بلاک کردیے، گاڑیوں کو آگ لگائی، اور ایپل اور جارڈن کے فلیگ شپ اسٹورز سمیت کئی دکانوں میں لوٹ مار کی۔ کرفیو کا اعلان لاس اینجلس کی میئر کیرن باس نے شہر کے وسطی علاقے میں کرفیو نافذ کیا۔ انہوں نے کہا، "میں نے ایمرجنسی نافذ کردی ہے اور ڈاؤن ٹاؤن میں لوٹ مار اور توڑ پھوڑ روکنے کے لیے منگل رات 8 بجے سے بدھ صبح 6 بجے تک کرفیو لگایا گیا ہے۔" ٹرمپ کا فوجی اقدام ٹرمپ نے مظاہروں کو دبانے کے لیے کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوزم کی منظوری کے بغیر 2000 نیشنل گارڈز اور 700 میرینز کو لاس اینجلس روانہ کیا۔ 1965 کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب کسی امریکی صدر نے گورنر کی اجازت کے بغیر فوج تعینات کی۔ اس اقدام سے مظاہرین مزید مشتعل ہوگئے، اور حالات بے قابو ہوگئے۔ کیلیفورنیا کی ڈیموکریٹک حکومت کا ردعمل کیلیفورنیا کے اٹارنی جنرل روب بونٹا نے ٹرمپ کے خلاف مقدمہ دائر کیا، الزام لگاتے ہوئے کہ انہوں نے غیر قانونی طور پر فوج تعینات کرکے ریاستی اختیارات کی خلاف ورزی کی۔ بونٹا نے کہا، "لاس اینجلس میں نہ کوئی حملہ ہو رہا ہے، نہ بغاوت۔ ٹرمپ جان بوجھ کر افراتفری پھیلا رہے ہیں تاکہ اپنی سیاست چمکائیں۔" لوٹ مار کی ویڈیوز وائرل سوشل میڈیا پر ایپل اسٹور کی لوٹ مار کی ویڈیوز وائرل ہوئیں، جن میں نقاب پوش افراد شیشے توڑتے اور سامان اٹھاتے دکھائی دیے۔ پولیس کی آمد پر کئی لوٹیرے اسٹور میں پھنس گئے۔ گولیوں اور سائرن کی آوازیں ویڈیوز میں سنائی دیتی ہیں۔ گلیمر کا شہر میدان جنگ ہالی ووڈ کی چمک دمک کے لیے مشہور لاس اینجلس اس وقت ہنگاموں کی زد میں ہے۔ ڈاؤن ٹاؤن سے پیراماؤنٹ اور کمپٹن تک تشدد پھیل گیا۔ پولیس مظاہرین پر فائرنگ کر رہی ہے، جبکہ 4000 نیشنل گارڈز شہر میں تعینات ہیں۔ ٹرمپ کے اس متنازعہ فیصلے نے نہ صرف لاس اینجلس بلکہ پورے امریکا میں کشیدگی بڑھا دی ہے۔