
ٹرمپ کا بھارت پر دباؤ: 50 فیصد ٹیرف اور یورپی ممالک سے پابندیوں کا مطالبہ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کے خلاف سخت رویہ اپناتے ہوئے نہ صرف اس کے خلاف 50 فیصد ٹیرف عائد کیا بلکہ یورپی ممالک پر بھی زور دیا کہ وہ بھارت سے تیل و گیس کی خریداری روک دیں اور اس پر پابندیاں لگائیں۔ یہ اقدام روس سے تیل کی تجارت اور یوکرین-روس تنازع کے تناظر میں اٹھایا گیا، جس نے بھارت-امریکہ تعلقات کو کشیدگی سے دوچار کر دیا۔ ٹرمپ نے یورپی ممالک پر دوہرے معیار کا الزام عائد کیا کہ وہ یوکرین کی حمایت تو کرتے ہیں لیکن روس کے ساتھ امن مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اس تنازع نے عالمی تجارت اور سفارتی تعلقات کو نئی پیچیدگیوں سے دوچار کر دیا ہے۔ واقعات کی تفصیل 30 اگست 2025 تک، ٹرمپ انتظامیہ نے بھارت پر 50 فیصد ٹیرف (25 فیصد بنیادی اور 25 فیصد اضافی) نافذ کیا، جو بھارت کی روس سے تیل کی خریداری پر ردعمل تھا۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ یہ ٹیرف روس پر دباؤ ڈالنے کے لیے ہیں تاکہ وہ یوکرین کے ساتھ امن مذاکرات پر آمادہ ہو۔ ٹرمپ نے یورپی ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ بھی بھارت پر پابندیاں عائد کریں اور اس سے تیل و گیس کی تجارت ختم کریں، کیونکہ بھارت روس کا سب سے بڑا تیل خریدار بن چکا ہے، جو 2022 سے قبل اس کی کل درآمد کا صرف 2 فیصد تھا اور اب 35-40 فیصد ہے۔ بھارت نے ان ٹیرف کو ’غیر منصفانہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کی توانائی کی پالیسی 1.4 ارب عوام کی ضروریات پر مبنی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ ’ہم اپنے کسانوں، مچھیروں اور دودھ پیدا کرنے والوں کے مفادات پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔‘ بھارت نے یہ بھی نشاندہی کی کہ یورپی ممالک خود روس کے ساتھ 2024 میں €67.5 ارب کی تجارت کر رہے ہیں، جبکہ چین، روس کا سب سے بڑا تیل خریدار، امریکی پابندیوں سے مستثنیٰ ہے۔ ٹرمپ نے یورپی ممالک پر الزام لگایا کہ وہ یوکرین کو جنگ جاری رکھنے کی ترغیب دیتے ہیں اور امن مذاکرات کی راہ میں حائل ہیں۔ انہوں نے 15 اگست 2025 کو الاسکا میں صدر ولادیمیر پوتن سے ملاقات کی اور یوکرین کے صدر زیلنسکی سے 18 اگست کو واشنگٹن میں بات چیت کی، جہاں یورپی رہنماؤں نے یوکرین کے لیے نیٹو طرز کی سیکیورٹی ضمانتوں کا مطالبہ کیا۔ ٹرمپ نے روس کو 50 دنوں میں جنگ بندی پر آمادہ کرنے کی دھمکی دی تھی، جو بعد میں 10-12 دنوں تک کم ہو گئی، لیکن مذاکرات ابھی تک نتیجہ خیز نہیں ہوئے۔ پس منظر اور اثرات ٹرمپ نے 2025 کی کواڈ کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا اور بھارت کے ساتھ دو طرفہ تجارت مذاکرات منسوخ کر دیے۔ وائٹ ہاؤس کے مشیر پیٹر نیوارو نے روس-یوکرین تنازع کو ’مودی کی جنگ‘ قرار دیتے ہوئے بھارت پر سخت تنقید کی۔ بھارت نے جواب میں کہا کہ وہ اپنی خودمختاری اور توانائی کی ضروریات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ ماہرین کے مطابق، یہ ٹیرف بھارت کی برآمدی صنعتوں، خصوصاً ٹیکسٹائل اور آٹو سیکٹر، کو نقصان پہنچائیں گے، لیکن بھارت 40 ممالک میں نئے تجارتی مواقع تلاش کر رہا ہے تاکہ اس نقصان کو کم کیا جائے۔ یورپی ممالک نے ابھی تک بھارت پر پابندیوں کے مطالبے پر کوئی واضح ردعمل نہیں دیا، لیکن وہ ٹرمپ کے امن مذاکرات کی حمایت کر رہے ہیں تاکہ پوتن کی نیت کو پرکھا جا سکے۔ ٹرمپ کی پالیسی نے عالمی تجارت کو غیر یقینی کی کیفیت سے دوچار کر دیا ہے، اور بھارت اب یورپ اور ایشیا کے ساتھ نئے معاہدوں پر زور دے رہا ہے۔ ’’ہم امن کے خواہاں ہیں، لیکن اپنی خودمختاری اور مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔‘‘ — بھارتی وزارت خارجہ حوالہ جات دی ہندو، انڈیا ٹوڈے، بی بی سی، ٹائمز آف انڈیا، بلومبرگ، ایکس پوسٹ