
جیل سے نہیں چلے گی حکومت! آئینی ترمیمی بل اور سیاسی سازش
پارلیمان کا حساب کتاب: کیا ملے گی دو تہائی اکثریت؟ بھارتی آئین کے آرٹیکل 368 کے تحت کسی آئینی ترمیم کے لیے دونوں ایوانوں (لوک سبھا اور راجیہ سبھا) میں دو سطحوں پر اکثریت درکار ہوتی ہے: کل اراکین کی اکثریت (یعنی ایوان کی کل رکنیت کا 50 فیصد سے زائد)۔ حاضر اور ووٹ دینے والے اراکین کی دو تہائی اکثریت۔ لوک سبھا کا منظرنامہ لوک سبھا میں فی الحال 542 اراکین ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ بل کی منظوری کے لیے کم از کم 272 اراکین کی حمایت درکار ہے (کل اکثریت)۔ اگر تمام 542 اراکین ووٹنگ میں شریک ہوں تو دو تہائی اکثریت کے لیے 361 اراکین کی حمایت ضروری ہوگی۔ این ڈی اے کے پاس لوک سبھا میں 293 اراکین ہیں، جو کہ دو تہائی اکثریت سے 68 ووٹ کم ہیں۔ راجیہ سبھا کی صورتحال راجیہ سبھا میں 239 اراکین ہیں، یعنی کل اکثریت کے لیے 120 اراکین کی حمایت چاہیے۔ اگر تمام اراکین ووٹنگ میں شریک ہوں تو دو تہائی اکثریت کے لیے 160 اراکین کی ضرورت ہوگی۔ این ڈی اے کے پاس یہاں 132 اراکین ہیں، جو دو تہائی سے 28 ووٹ کم ہیں۔ ظاہر ہے کہ این ڈی اے کے لیے یہ بل منظور کروانا آسان نہیں ہوگا، خاص طور پر جب اپوزیشن، بشمول کانگریس، اس بل کے خلاف متحد ہے۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ یہ بل نہ صرف وفاقی ڈھانچے پر حملہ ہے بلکہ مکمل طور پر غیر آئینی بھی ہے، کیونکہ بھارتی عدالتی نظام کے مطابق جب تک جرم ثابت نہ ہو، کسی کو مجرم نہیں مانا جا سکتا۔ ریاستی اسمبلیوں کی منظوری یہ بل وفاقی ڈھانچے کو متاثر کرتا ہے، اس لیے اسے پارلیمان سے منظوری کے بعد کم از کم آدھے ریاستی اسمبلیوں سے سادہ اکثریت سے منظوری درکار ہوگی۔ چونکہ این ڈی اے کی زیادہ تر ریاستوں میں حکومتیں ہیں، اس مرحلے پر سرکار کو شاید زیادہ دشواری نہ ہو۔ تاہم، اپوزیشن کے زیر اقتدار ریاستیں، جیسے مغربی بنگال، کیرالہ، اور تمل ناڈو، اس بل کی سخت مخالفت کر سکتی ہیں، جو سیاسی تناؤ کو بڑھاوا دے گا۔ اپوزیشن کا موقف اور سرکار کی "سازش" اپوزیشن کا الزام ہے کہ یہ بل بدعنوانی کے خلاف لڑائی کا بہانہ ہے، جبکہ حقیقت میں مودی سرکار اسے اپوزیشن کی حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ گزشتہ 11 برسوں میں تحقیقاتی ایجنسیوں جیسے ای ڈی اور سی بی آئی کا مبینہ طور پر اپوزیشن لیڈروں کے خلاف دباؤ کے طور پر استعمال ہونے کا ریکارڈ موجود ہے۔ ایسی صورتحال میں، یہ بل اپوزیشن کے زیر اقتدار ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ یا وزراء کو نشانہ بنانے کا ہتھیار بن سکتا ہے۔ اگر کوئی لیڈر عدالتی حراست میں آتا ہے تو اس کی خودکار برخاستگی سے ریاستی حکومتیں کمزور ہو سکتی ہیں، جو این ڈی اے کے لیے سیاسی فائدہ کا باعث بنے گا۔ نقصانات اور سیاسی کھیل اس بل کے ممکنہ نقصانات کئی ہیں: وفاقی ڈھانچے پر حملہ: یہ بل ریاستی حکومتوں کی خودمختاری کو کمزور کر سکتا ہے، کیونکہ عدالتی حراست جیسے انتظامی فیصلے سیاسی دباؤ کے تحت لیے جا سکتے ہیں۔ عدالتی اصولوں کی خلاف ورزی: بھارتی عدالتی نظام کے مطابق، جرم ثابت ہونے سے پہلے کسی کو مجرم ماننا غیر آئینی ہے۔ یہ بل اس اصول کو نظرانداز کرتا ہے۔ سیاسی بدنیتی: اپوزیشن کا الزام ہے کہ یہ بل این ڈی اے کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے، جس کا مقصد اپوزیشن کو بدنام کرنا اور اسے بدعنوانی کے حامی کے طور پر پیش کرنا ہے۔ اگر اپوزیشن اس بل کی حمایت نہیں کرتی، تو سرکار اسے بدعنوانی کے خلاف کارروائی کی مخالف قرار دے کر سیاسی فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ سرکار پر طنز مودی سرکار کی یہ "اینٹی کرپشن" مہم دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ اپنے ہی بنائے جال میں پھنس گئی ہے۔ ایک طرف تو یہ بلند بانگ دعوے کرتی ہے کہ "جیل سے نہیں چلے گی حکومت"، مگر دوسری طرف اپوزیشن کے خلاف ای ڈی اور سی بی آئی کو ہتھیار بنانے کا الزام خود اس پر لگتا ہے۔ یہ بل اگر پاس نہ ہوا تو سرکار کہے گی کہ اپوزیشن بدعنوانی کی حامی ہے، اور اگر پاس ہو گیا تو اپوزیشن کی ریاستی حکومتیں خطرے میں پڑ جائیں گی۔ واہ، کیا شطرنج کی چال ہے! لیکن جناب، عوام کی آنکھیں اب اتنی دھندلی نہیں کہ وہ اس سیاسی ڈرامے کو نہ دیکھ سکیں۔ یہ بل کم، ایک سیاسی بیان زیادہ لگتا ہے، جس کا مقصد اپوزیشن کو کٹہرے میں کھڑا کرنا ہے۔ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کا کردار مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) اس بل پر غور کرے گی اور شیتکالین اجلاس کے پہلے دن اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ اگر اپوزیشن اس کمیٹی میں شامل ہوتی ہے، تو وہ اہم ترامیم تجویز کر سکتی ہے، جیسے کہ عدالتی حراست کے بجائے سزا کی تصدیق کے بعد برخاستگی کو لازمی قرار دینا۔ موجودہ قانون کے مطابق، دو سال یا اس سے زائد سزا پر پارلیمانی رکنیت خودکار طور پر ختم ہو جاتی ہے۔ اپوزیشن اسے کم کرنے یا دیگر ترامیم کی تجویز دے سکتی ہے، لیکن سرکار ان تجاویز کو قبول کرے گی یا نہیں، یہ ایک بڑا سوال ہے۔ نتیجہ یہ آئینی ترمیمی بل سیاسی چالاکی اور بدعنوانی کے خلاف جنگ کے درمیان ایک پتلی لکیر پر چل رہا ہے۔ این ڈی اے کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں ہے، اور اپوزیشن کی سخت مخالفت اسے پارلیمان میں روک سکتی ہے۔ لیکن اگر یہ بل سیاسی دباؤ یا چالاکی سے پاس ہو جاتا ہے، تو یہ وفاقی ڈھانچے اور عدالتی اصولوں کے لیے سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔ سرکار کا یہ "اینٹی کرپشن" ڈرامہ شاید اسے کچھ سیاسی پوائنٹس دلا دے، مگر طویل مدت میں یہ بھارتی جمہوریت کے تانے بانے کو کمزور کر سکتا ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ اس سیاسی کھیل کو غور سے دیکھیں اور فیصلہ کریں کہ یہ بل بدعنوانی کے خلاف ہے یا سیاسی سازش کا ایک نیا باب۔پارلیمان کا حساب کتاب: کیا ملے گی دو تہائی اکثریت؟ بھارتی آئین کے آرٹیکل 368 کے تحت کسی آئینی ترمیم کے لیے دونوں ایوانوں (لوک سبھا اور راجیہ سبھا) میں دو سطحوں پر اکثریت درکار ہوتی ہے: کل اراکین کی اکثریت (یعنی ایوان کی کل رکنیت کا 50 فیصد سے زائد)۔ حاضر اور ووٹ دینے والے اراکین کی دو تہائی اکثریت۔ لوک سبھا کا منظرنامہ لوک سبھا میں فی الحال 542 اراکین ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ بل کی منظوری کے لیے کم از کم 272 اراکین کی حمایت درکار ہے (کل اکثریت)۔ اگر تمام 542 اراکین ووٹنگ میں شریک ہوں تو دو تہائی اکثریت کے لیے 361 اراکین کی حمایت ضروری ہوگی۔ این ڈی اے کے پاس لوک سبھا میں 293 اراکین ہیں، جو کہ دو تہائی اکثریت سے 68 ووٹ کم ہیں۔ راجیہ سبھا کی صورتحال راجیہ سبھا میں 239 اراکین ہیں، یعنی کل اکثریت کے لیے 120 اراکین کی حمایت چاہیے۔ اگر تمام اراکین ووٹنگ میں شریک ہوں تو دو تہائی اکثریت کے لیے 160 اراکین کی ضرورت ہوگی۔ این ڈی اے کے پاس یہاں 132 اراکین ہیں، جو دو تہائی سے 28 ووٹ کم ہیں۔ ظاہر ہے کہ این ڈی اے کے لیے یہ بل منظور کروانا آسان نہیں ہوگا، خاص طور پر جب اپوزیشن، بشمول کانگریس، اس بل کے خلاف متحد ہے۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ یہ بل نہ صرف وفاقی ڈھانچے پر حملہ ہے بلکہ مکمل طور پر غیر آئینی بھی ہے، کیونکہ بھارتی عدالتی نظام کے مطابق جب تک جرم ثابت نہ ہو، کسی کو مجرم نہیں مانا جا سکتا۔ ریاستی اسمبلیوں کی منظوری یہ بل وفاقی ڈھانچے کو متاثر کرتا ہے، اس لیے اسے پارلیمان سے منظوری کے بعد کم از کم آدھے ریاستی اسمبلیوں سے سادہ اکثریت سے منظوری درکار ہوگی۔ چونکہ این ڈی اے کی زیادہ تر ریاستوں میں حکومتیں ہیں، اس مرحلے پر سرکار کو شاید زیادہ دشواری نہ ہو۔ تاہم، اپوزیشن کے زیر اقتدار ریاستیں، جیسے مغربی بنگال، کیرالہ، اور تمل ناڈو، اس بل کی سخت مخالفت کر سکتی ہیں، جو سیاسی تناؤ کو بڑھاوا دے گا۔ اپوزیشن کا موقف اور سرکار کی "سازش" اپوزیشن کا الزام ہے کہ یہ بل بدعنوانی کے خلاف لڑائی کا بہانہ ہے، جبکہ حقیقت میں مودی سرکار اسے اپوزیشن کی حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ گزشتہ 11 برسوں میں تحقیقاتی ایجنسیوں جیسے ای ڈی اور سی بی آئی کا مبینہ طور پر اپوزیشن لیڈروں کے خلاف دباؤ کے طور پر استعمال ہونے کا ریکارڈ موجود ہے۔ ایسی صورتحال میں، یہ بل اپوزیشن کے زیر اقتدار ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ یا وزراء کو نشانہ بنانے کا ہتھیار بن سکتا ہے۔ اگر کوئی لیڈر عدالتی حراست میں آتا ہے تو اس کی خودکار برخاستگی سے ریاستی حکومتیں کمزور ہو سکتی ہیں، جو این ڈی اے کے لیے سیاسی فائدہ کا باعث بنے گا۔ نقصانات اور سیاسی کھیل اس بل کے ممکنہ نقصانات کئی ہیں: وفاقی ڈھانچے پر حملہ: یہ بل ریاستی حکومتوں کی خودمختاری کو کمزور کر سکتا ہے، کیونکہ عدالتی حراست جیسے انتظامی فیصلے سیاسی دباؤ کے تحت لیے جا سکتے ہیں۔ عدالتی اصولوں کی خلاف ورزی: بھارتی عدالتی نظام کے مطابق، جرم ثابت ہونے سے پہلے کسی کو مجرم ماننا غیر آئینی ہے۔ یہ بل اس اصول کو نظرانداز کرتا ہے۔ سیاسی بدنیتی: اپوزیشن کا الزام ہے کہ یہ بل این ڈی اے کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے، جس کا مقصد اپوزیشن کو بدنام کرنا اور اسے بدعنوانی کے حامی کے طور پر پیش کرنا ہے۔ اگر اپوزیشن اس بل کی حمایت نہیں کرتی، تو سرکار اسے بدعنوانی کے خلاف کارروائی کی مخالف قرار دے کر سیاسی فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ سرکار پر طنز مودی سرکار کی یہ "اینٹی کرپشن" مہم دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ اپنے ہی بنائے جال میں پھنس گئی ہے۔ ایک طرف تو یہ بلند بانگ دعوے کرتی ہے کہ "جیل سے نہیں چلے گی حکومت"، مگر دوسری طرف اپوزیشن کے خلاف ای ڈی اور سی بی آئی کو ہتھیار بنانے کا الزام خود اس پر لگتا ہے۔ یہ بل اگر پاس نہ ہوا تو سرکار کہے گی کہ اپوزیشن بدعنوانی کی حامی ہے، اور اگر پاس ہو گیا تو اپوزیشن کی ریاستی حکومتیں خطرے میں پڑ جائیں گی۔ واہ، کیا شطرنج کی چال ہے! لیکن جناب، عوام کی آنکھیں اب اتنی دھندلی نہیں کہ وہ اس سیاسی ڈرامے کو نہ دیکھ سکیں۔ یہ بل کم، ایک سیاسی بیان زیادہ لگتا ہے، جس کا مقصد اپوزیشن کو کٹہرے میں کھڑا کرنا ہے۔ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کا کردار مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) اس بل پر غور کرے گی اور شیتکالین اجلاس کے پہلے دن اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ اگر اپوزیشن اس کمیٹی میں شامل ہوتی ہے، تو وہ اہم ترامیم تجویز کر سکتی ہے، جیسے کہ عدالتی حراست کے بجائے سزا کی تصدیق کے بعد برخاستگی کو لازمی قرار دینا۔ موجودہ قانون کے مطابق، دو سال یا اس سے زائد سزا پر پارلیمانی رکنیت خودکار طور پر ختم ہو جاتی ہے۔ اپوزیشن اسے کم کرنے یا دیگر ترامیم کی تجویز دے سکتی ہے، لیکن سرکار ان تجاویز کو قبول کرے گی یا نہیں، یہ ایک بڑا سوال ہے۔ نتیجہ یہ آئینی ترمیمی بل سیاسی چالاکی اور بدعنوانی کے خلاف جنگ کے درمیان ایک پتلی لکیر پر چل رہا ہے۔ این ڈی اے کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں ہے، اور اپوزیشن کی سخت مخالفت اسے پارلیمان میں روک سکتی ہے۔ لیکن اگر یہ بل سیاسی دباؤ یا چالاکی سے پاس ہو جاتا ہے، تو یہ وفاقی ڈھانچے اور عدالتی اصولوں کے لیے سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔ سرکار کا یہ "اینٹی کرپشن" ڈرامہ شاید اسے کچھ سیاسی پوائنٹس دلا دے، مگر طویل مدت میں یہ بھارتی جمہوریت کے تانے بانے کو کمزور کر سکتا ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ اس سیاسی کھیل کو غور سے دیکھیں اور فیصلہ کریں کہ یہ بل بدعنوانی کے خلاف ہے یا سیاسی سازش کا ایک نیا باب۔ حوالہ جات ہندوستان ٹائمز، دی ہندو، انڈیا ٹوڈے، ٹائمز آف انڈیا،