
ممبئی دھماکوں پر اجول نکم کا انکشاف: سنجے دت کی خاموشی اور ایک تاریخی مقدمہ
واقعہ کی تفصیل: اجول نکم، جو حال ہی میں صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کی سفارش پر راجیہ سبھا کے لیے نامزد ہوئے ہیں، نے این ڈی ٹی وی کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں اپنی قانونی کیریئر کے اہم لمحات پر روشنی ڈالی۔ اس دوران انہوں نے 1993 کے ممبئی سلسلہ وار دھماکوں کے مقدمے سے متعلق ایک چونکا دینے والا دعویٰ کیا۔ نکم نے کہا: ’’12 مارچ 1993 کو ممبئی میں ہونے والے سلسلہ وار دھماکوں سے ایک دن پہلے، ایک وین سنجے دت کے گھر پہنچی تھی، جو ہتھیاروں سے بھری ہوئی تھی۔ اس میں ہینڈ گرینیڈ اور AK-47 رائفلیں تھیں، جنہیں بدنام زمانہ گینگسٹر داؤد ابراہیم کا ساتھی ابو سالم لایا تھا۔ سنجے دت نے کچھ گرینیڈ اور بندوقیں لیں، لیکن بعد میں انہوں نے زیادہ تر ہتھیار واپس کر دیے اور صرف ایک AK-47 اپنے پاس رکھی۔ اگر انہوں نے اس وقت پولیس کو اطلاع دی ہوتی، تو پولیس تحقیقات کرتی اور یہ دھماکے کبھی نہ ہوتے۔‘‘ ان دھماکوں نے ممبئی کو ہلا کر رکھ دیا تھا، جس میں 267 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ نکم کے اس دعوے نے ایک بار پھر اس مقدمے کو عوامی بحث کا موضوع بنا دیا ہے۔ سنجے دت کی معصومیت پر نکم کا موقف: اجول نکم نے سنجے دت کو قانون کی نظر میں قصوروار قرار دیتے ہوئے بھی ان کی سادہ لوحی اور معصومیت کی حمایت کی۔ انہوں نے کہا: ’’سنجے دت ایک سادہ اور معصوم شخص ہیں۔ انہوں نے ہتھیار رکھنے کی غلطی کی، کیونکہ انہیں بندوقوں کا شوق تھا۔ قانون کی نظر میں یہ ایک جرم تھا، لیکن ان کا ارادہ دہشت گردی کا نہیں تھا۔ میں نے ان کے وکیل سے بھی کہا تھا کہ AK-47 سے کبھی فائرنگ نہیں کی گئی، لیکن پولیس کو اطلاع نہ دینا وہ غلطی تھی جس کی وجہ سے دھماکوں کو روکا نہ جا سکا۔‘‘ نکم نے اسے ایک قانونی غلطی قرار دیا، لیکن ساتھ ہی سنجے دت کے کردار کو ایک انسانی زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی، جو ان کے خیال میں ایک شوقین لیکن غیر محتاط شخص تھے۔ عدالت میں سنجے دت کا خوفزدہ لمحہ: نکم نے انٹرویو میں ایک ایسی بات کا انکشاف کیا جو اب تک میڈیا سے پوشیدہ تھی۔ انہوں نے بتایا کہ جب سنجے دت کو آرمز ایکٹ کے تحت سزا سنائی گئی تو وہ عدالت میں شدید خوفزدہ ہو گئے تھے۔ نکم نے کہا: ’’جب ٹاڈا عدالت میں سنجے دت کو سزا سنائی گئی تو وہ اپنا ہوش کھو بیٹھے۔ ان کے چہرے کے تاثرات بدل گئے، اور وہ صدمے میں دکھائی دیے۔ میں نے دیکھا کہ وہ سزا کو قبول نہیں کر پا رہے تھے۔ اس وقت میں نے ان سے کہا، ’سنجے، ایسا مت کرو۔ میڈیا تمہیں دیکھ رہا ہے۔ تم ایک اداکار ہو، اگر تم خوفزدہ دکھائی دیے تو لوگ تمہیں قصوروار سمجھیں گے۔ تمہارے پاس اپیل کا حق ہے۔‘ اس پر سنجے نے کہا، ’جی سر، جی سر۔‘‘ قانونی پس منظر: ممبئی دھماکوں کے مقدمے میں سنجے دت کو ٹاڈا (Terrorist and Disruptive Activities Act) کے تحت دہشت گردی کے الزامات سے بری کر دیا گیا تھا، لیکن انہیں آرمز ایکٹ کے تحت غیر قانونی طور پر ہتھیار رکھنے کا قصوروار پایا گیا۔ عدالت نے انہیں چھ سال کی سزا سنائی، جسے بعد میں سپریم کورٹ نے پانچ سال تک کم کر دیا۔ سنجے دت نے یہ سزا پونے کی یرواڑہ جیل میں پوری کی۔ نکم نے بتایا کہ انہوں نے سنجے دت کے وکیل سے بھی کہا تھا کہ ہتھیار رکھنا ایک جرم تھا، لیکن پولیس کو اطلاع نہ دینا وہ اصل غلطی تھی جس نے دھماکوں کو روکنے کا موقع ضائع کر دیا۔ سماجی اور قانونی مضمرات: اجول نکم کے اس انکشاف نے ایک بار پھر سنجے دت کے ماضی اور 1993 کے دھماکوں سے متعلق بحث کو ہوا دی ہے۔ ایک ایکس پوسٹ میں کہا گیا: ’’اجول نکم کا دعویٰ کہ سنجے دت ممبئی دھماکوں کو روک سکتے تھے، ایک نیا موڑ لاتا ہے۔ کیا واقعی ایک اداکار کی خاموشی نے اتنی بڑی تباہی کو جنم دیا؟‘‘ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ نکم کا یہ بیان سنجے دت کی عوامی تصویر کو ایک نئے زاویے سے پیش کرتا ہے۔ جہاں ایک طرف وہ قانون کی نظر میں قصوروار تھے، وہیں نکم کی رائے کہ وہ معصوم اور سادہ لوح تھے، عوام میں ہمدردی پیدا کر سکتی ہے۔ تاہم، کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ نکم کا یہ بیان سیاسی مقاصد کے لیے ہو سکتا ہے، کیونکہ وہ اب راجیہ سبھا کے رکن بننے جا رہے ہیں۔ اجول نکم کی راجیہ سبھا نامزدگی: اجول نکم، جنہیں 26/11 ممبئی دہشت گرد حملوں کے مقدمے میں اجمل قصاب کے خلاف سرکاری وکیل کے طور پر شہرت ملی، کو حال ہی میں صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے راجیہ سبھا کے لیے نامزد کیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے ان کی اس نامزدگی پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا: ’’اجول نکم کی قانونی میدان میں لگن اور ہمارے آئین کے تئیں ان کی وفاداری قابل ستائش ہے۔‘‘ نکم نے اپنی نامزدگی کے بعد کہا کہ وہ راجیہ سبھا میں عدالتی اصلاحات اور قومی سلامتی سے متعلق قانون سازی پر کام کریں گے۔ ماخذ: این ڈی ٹی وی: امر اجالا: دینیک بھاسکر: نو بھارت ٹائمز: ایکس پوسٹس: