
سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ: بیوی کی خفیہ ریکارڈنگ کو ثبوت کے طور پر قبول کیا جائے گا
فیصلے کی تفصیل: سپریم کورٹ کی دو رکنی بینچ، جس کی سربراہی جسٹس بی وی ناگرتنا اور جسٹس ستیش چندر شرما نے کی، نے 10 جولائی 2025 کو ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے پنجاب اینڈ ہریانہ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو مسترد کر دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ بیوی کی ٹیلی فونک گفتگو کو اس کی اجازت کے بغیر ریکارڈ کرنا اس کے پرائیویسی کے حق کی خلاف ورزی ہے اور اسے فیملی کورٹ میں ثبوت کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ ایسی ریکارڈنگز کو ازدواجی تنازعات کے مقدمات میں ثبوت کے طور پر قبول کیا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ نہ تو آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت پرائیویسی کے حق کی خلاف ورزی ہے اور نہ ہی ایویڈنس ایکٹ کی دفعہ 122 کے تحت میاں بیوی کے درمیان رازداری کے حق کو متاثر کرتی ہے۔ عدالت نے کہا: ’’ایویڈنس ایکٹ کی دفعہ 122 میاں بیوی کے درمیان رازداری کے حق کو مکمل تحفظ نہیں دیتی۔ یہ دفعہ صرف اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ کوئی فریق اپنے شریک حیات کے خلاف زبردستی گواہی نہ دے، لیکن خفیہ ریکارڈنگ کو ثبوت کے طور پر پیش کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔‘‘ عدالت نے مزید کہا کہ ایسی ریکارڈنگز فریقین کو منصفانہ سماعت، متعلقہ ثبوت پیش کرنے، اور اپنا موقف مؤثر طریقے سے رکھنے کا موقع فراہم کرتی ہیں، جو انصاف کے حصول کے لیے ضروری ہے۔ عدالت کا استدلال: سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں پرائیویسی اور انصاف کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کی۔ بینچ نے تسلیم کیا کہ اگر ایسی ریکارڈنگز کو ثبوت کے طور پر قبول کیا گیا تو اس سے گھریلو ہم آہنگی پر اثر پڑ سکتا ہے اور میاں بیوی کے درمیان جاسوسی کو فروغ مل سکتا ہے۔ تاہم، عدالت نے یہ بھی کہا: ’’اگر میاں بیوی کا رشتہ اس نہج پر پہنچ جائے جہاں وہ ایک دوسرے کی جاسوسی کرنے پر مجبور ہوں، تو یہ خود ایک ٹوٹے ہوئے رشتے کی علامت ہے۔ ایسی صورت میں، پرائیویسی کے حق کو انصاف کے حق پر ترجیح دینا مناسب نہیں۔‘‘ عدالت نے واضح کیا کہ پرائیویسی کا حق مطلق نہیں ہے اور اسے منصفانہ سماعت کے حق کے ساتھ متوازن کیا جانا چاہیے۔ ایویڈنس ایکٹ کی دفعہ 122 کے تحت میاں بیوی کے درمیان رازداری کا تحفظ صرف اس وقت تک ہے جب تک کہ اس سے انصاف کے عمل میں خلل نہ پڑے۔ کیس کا پس منظر: یہ فیصلہ ایک خصوصی اجازت کی درخواست (Special Leave Petition) کے جواب میں آیا، جس میں پنجاب اینڈ ہریانہ ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا۔ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ بیوی کی ٹیلی فونک گفتگو کو اس کی اجازت کے بغیر ریکارڈ کرنا اس کے بنیادی حقوق، خصوصاً پرائیویسی کے حق کی خلاف ورزی ہے۔ ہائی کورٹ کی جج جسٹس لِسا گل نے ہندو میرج ایکٹ 1955 کی دفعہ 13 کے تحت طلاق سے متعلق ایک مقدمے میں یہ فیصلہ سنایا تھا کہ ایسی ریکارڈنگز کو فیملی کورٹ میں ثبوت کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔ اس کیس میں شوہر نے اپنی بیوی کی ٹیلی فونک گفتگو کو خفیہ طور پر ریکارڈ کیا تھا اور اسے طلاق کے مقدمے میں بطور ثبوت پیش کیا تھا۔ ہائی کورٹ نے اسے ناقابل قبول قرار دیا تھا، لیکن سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو پلٹتے ہوئے کہا کہ ایسی ریکارڈنگز کو قانونی طور پر ثبوت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ وہ مقدمے کے حقائق سے متعلق ہوں۔ سماجی اور قانونی مضمرات: اس فیصلے نے قانونی اور سماجی دونوں سطحوں پر ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ ایک طرف، قانونی ماہرین نے اس فیصلے کی ستائش کی کہ اس سے فیملی کورٹس میں انصاف کے حصول میں آسانی ہوگی، خصوصاً ان مقدمات میں جہاں گھریلو تشدد یا دھوکہ دہی کے الزامات ہوں۔ ایک سینئر وکیل نے کہا: ’’یہ فیصلہ انصاف کے عمل کو مضبوط کرتا ہے۔ اگر کوئی فریق اپنے شریک حیات کے رویے کے ثبوت پیش کرنا چاہتا ہے، تو اسے اس کا حق ہونا چاہیے۔‘‘ دوسری طرف، پرائیویسی کے حامیوں نے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے میاں بیوی کے درمیان اعتماد کی فضا کمزور ہوگی اور گھریلو جاسوسی کے رجحان کو فروغ ملے گا۔ ایک ایکس پوسٹ میں کہا گیا: ’’سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ پرائیویسی کے حق کے لیے ایک دھچکا ہے۔ کیا اب ہم اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں رہیں گے؟‘‘ نتیجہ: سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ایک سنگ میل ہے، جو ازدواجی تنازعات کے مقدمات میں ثبوت کے معیار کو نئی شکل دیتا ہے۔ یہ نہ صرف فیملی کورٹس کے لیے ایک نئی راہ کھولتا ہے بلکہ پرائیویسی کے حق اور انصاف کے تقاضوں کے درمیان ایک نازک توازن قائم کرتا ہے۔ تاہم، اس فیصلے نے سماجی اور اخلاقی سوالات کو بھی جنم دیا ہے کہ کیا گھریلو رشتوں کی رازداری کو قانونی ثبوت کے لیے قربان کیا جا سکتا ہے؟ جیسا کہ ایک قانونی تجزیہ کار نے کہا: ’’یہ فیصلہ قانون کی نظر میں درست ہو سکتا ہے، لیکن اس سے گھریلو رشتوں کا اعتماد متاثر ہوگا۔ اب وقت ہے کہ ہم پرائیویسی اور انصاف کے درمیان ایک نئے سماجی معاہدے کی طرف بڑھیں۔‘‘ یہ کیس اب قانونی اور سماجی بحث کا ایک اہم موضوع بن چکا ہے، اور اس کے اثرات آنے والے برسوں میں دیکھے جائیں گے۔ ماخذ: دی ہندو: انڈین ایکسپریس: ٹائمز آف انڈیا: بار اینڈ بینچ: ایکس پوسٹس: