امام محمد رحمہ اللہ تعالٰی

امام محمد ؒ کے نام سے کون ناواقف ہے، انہی کی کتابوں نے حنفی فقہ کو مدوّن کیا، مسائل کے دلائل جمع کئے، اختلافی اقوال ذکر کئے اور دنیا کے اکثر خطوں میں رائج فقہ حنفی تصنیفی شکل میں امت مسلمہ کے سامنے پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ـ مطالعہ ان کی طبیعت ثانیہ بن چکا تھا، علم ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا اور اسی میں وہ منہمک رہتے، کتابوں کا ڈھیر ارد گرد لگا رہتا، رات سوتے نہ تھے،طشت میں پانی رکھا رہتا، نیند آتی تو پانی سے زائل کرتے، ایک موضوع سے اکتا جاتے، دوسرا شروع کردیتے ـ (¹) مجھے ڈرا نہیں سکتی فضا کی تاریکی مری سرشت میں ہے پاکی و درخشانی تو اے مسافر شب! خود چراغ بن اپنا کر اپنی رات کو داغ جگر سے نورانی لوگوں نے اس شب بیداری کی وجہ پوچھی تو فرمانے لگے: " میں کیسے سو رہوں جب کہ عام مسلمان ہم پر اعتماد کر کے سو رہے ہیں کہ ہم ان کی رہنمائی کریں گے ـ"(²) گھر والوں سے کہہ رکھا تھا کہ دنیوی ضروریات کے سلسلہ میں مجھ سے بات نہ کریں ـ اس بارے میں میرے وکیل سے کہہ دیا کریں، تاکہ میرے علم و مطالعہ کی یکسوئی میں خلل نہ آئے ـ (⁴) علم و مطالعہ کی یکسوئی میں امکان بھر کوشش کرتے کہ کوئی مخل نہ ہو، ان کے گھر میں ایک مرغ تھا جس کی بانگ کسی وقت کی پابند نہ تھی کسی بھی وقت جی چاہتا نالاں ہوجاتا، امام نے ایک دن پکڑ کر یہ کہتے ہوئے ذبح کیا کہ یہ خوا مخواہ میرے علم و مطالعہ میں مخل بنا ہوا ہے ـ فرماتے تھے: لَذَّاتُ الْأَفْكَارِ خَيْرٌ مِنْ لَذَّاتِ الْأَبْكَارِ (⁵) " فکر و نظر کی لذتوں کے سامنے دوشیزاؤں کی لذتیں کچھ بھی نہیں ـ" امام محمدؒ نے نو سو نناوے کتابیں لکھیں (⁶) امام احمد بن حنبلؒ سے پوچھا گیا کہ یہ دقیق مسائل آپ کو کہاں سے حاصل ہوئے ـ فرمانے لگے "محمد بن الحسن کی کتابوں سے"(⁷) امام محمدؒ نے جو مسائل قرآن و سنت اور اجماع سے مستنبط کئے ان کی تعداد دس لاکھ ستر ہزار ایک سو بتائی گئی ہے ـ (⁸) ہارون رشید کے ساتھ " رے " کی طرف گئے، وہیں انتقال فرمایا، اسی دن مشہور نحوی امام کسائی کا بھی انتقال ہوا، دفن کرنے کے بعد ہارون رشید نے کہا ـ دَفَنَّا اليوم اَللُّغَتَه وَالفِقۃ " آج ہم نے لغت و فقہ دونوں کو دفن کردیا ـ" آپ کی وفات ۱۸۹ھ میں ہوئی ـ عمر عزیز کی ۵۸ بہاریں دیکھنی نصیب ہوئیں ـ (۱۰) ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ❶ مفتاح السعادة جلد ۱ صفحہ ۲۳ ❷ مناقب کردی صفحہ ۴۳۶ ❹ دیکھئے تاریخ بغداد جلد۴ صفحہ ۱۷۶ ❺ حدائق الحنفیہ صفحہ ۷۶ ❻ الجواہر المضیئہ جلد ۱ صفحہ ۷۶ ❼ دیکھئے سیر اعلام النباء جلد۹ صفحہ ۱۳۶ ❽ حدائق الحنفیہ جلد ۴ ص: ۱۳۰ ۱۰ دیکھئے تاریخ بغداد جلد ۲ ص ۱۸۱ نیز الاعلام للزر کلی جلد ۶ صفحہ ۸۰ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ کتاب : متاعِ وقت اور کاروانِ علم (صفحہ نمبر ۱۵۶ تا ۱۵۸) مصنف : ابن الحسن عباسی ؒ ناقل : اسلامک ٹیوب پرو ایپ مزید قیمتی مضامین کے لیے ہمارے واٹسپ چینل کو فالو کریں

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

​​زندگی بھر اللہ کی نافرمانی کرنے والا

​​زندگی بھر اللہ کی نافرمانی کرنے والا

ایک حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے... فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اقدس ﷺ نے پچھلی اُمتوں کے ایک شخص کا واقعہ بیان فرمایا... کہ ایک شخص تھا جس نے اپنی جان پر بڑا ظلم کیا تھا... بڑے بڑے گناہ کئے تھے... بڑی خراب زندگی گزاری تھی... اور جب اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے گھر والوں سے وصیت کرتے ہوئے کہا... کہ میں نے اپنی زندگی کو گناہوں اور غفلتوں میں گزار دی ہے... کوئی نیک کام تو کیا نہیں ہے... اس لئے جب میں مرجاؤں تو میری نعش کو جلا دینا اور جو راکھ بن جائے تو اس کو بلکل باریک پیس لینا... پھر اس راکھ کو مختلف جگہوں پر تیز ہوا میں اُڑادینا تاکہ وہ ذرّات دور دور تک چلے جائیں... یہ وصیت میں اس لئے کر رہا ہوں... کہ اللہ کی قسم میں اللہ تعالٰی کے ہاتھ آگیا تو مجھے اللہ تعالٰی ایسا عذاب دے گا... کہ ایسا عذاب دنیا میں کسی اور شخص کو نہیں دیا ہوگا... اس لئے کہ میں نے گناہ ہی ایسے کئے ہیں کہ اس عذاب کا مستحق ہوں... جب اس شخص کا انتقال ہوگیا تو اس کے گھر والوں نے اس کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے اس کی نعش کو جلایا... پھر اس کو پیسا اور پھر ہواؤں میں اُڑادیا... جس کے نتیجے میں اس کے ذرات دور دور تک بکھر گئے... یہ تو اس کی حماقت کی بات تھی کہ شاید اللہ تعالٰی میرے ذرّات کو جمع کرنے پر قادر نہیں ہوں گے... چنانچہ اللہ تعالٰی نے ہوا کو حکم دیا کہ اس کے ذرات جمع کرو... جب ذرات جمع ہوگئے تو اللہ تعالٰی نے حکم دیا... کہ اس کو دوبارہ مکمل انسان جیسا تھا ویسا بنادیا جائے... چنانچہ وہ دوبارہ زندہ ہوکر اللہ تعالٰی کے سامنے پیش کیا گیا... اللہ تعالٰی نے اس سے سوال کیا کہ تم نے اپنے گھر والوں کو یہ سب عمل کرنے کی وصیت کیوں کی تھی؟ جواب میں اس نے کہا "خـــشیـتک یارب" اے اللہ آپ کے ڈر کی وجہ سے... اس لئے کہ میں نے گناہ بہت کئے تھے اور ان گناہوں کے نتیجے میں مجھے یقین ہوگیا تھا کہ میں آپ کے عذاب کا مستحق ہوگیا ہوں... اور آپ کا عذاب بڑا سخت ہے تو میں نے اس عذاب کے ڈر سے یہ وصیت کردی تھی... اللہ تعالٰی فرمائیں گے کہ میرے ڈر کی وجہ سے تم نے یہ عمل کیا تھا... تو جاؤ میں نے تمہیں معاف کردیا... یہ واقعہ خود حضور اقدسﷺ نے بیان فرمایا جو صحیح مسلم میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہے ـ (صحیح مسلم کتاب التوبة و تنبیہ الغافلین) ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ کتاب : اللہ بندوں سے کتنی محبت کرتے ہیں؟ ( صفحہ نمبر : ۳۳۶، ۳۲۷ ) مولف : مولانا ارسلان بن اختر انتخاب : اسلامک ٹیوب پرو ایپ