تمہارا مقام اور اللہ کی مرضی

کسی بزرگ نے کیا ہی فرمایا : اگر تم یہ جاننا چاہتے ہو کہ اللہ کے نزدیک تمہارا مقام کیا ہے، تو دیکھو وہ تمہیں کس کام میں مشغول رکھتا ہے: اگر وہ تمہیں اپنے ذکر میں مشغول رکھے، تو جان لو کہ وہ تمہیں یاد رکھنا چاہتا ہے۔ اگر تمہیں قرآن میں مصروف کرے، تو سمجھ لو کہ وہ تم سے ہمکلام ہونا چاہتا ہے۔ اگر تمہیں نیک اعمال میں مصروف کرے، تو جان لو کہ وہ تمہیں اپنے قریب کرنا چاہتا ہے۔ اگر دنیاوی معاملات میں الجھائے، تو یہ سمجھو کہ تمہیں دور کر رہا ہے۔ اگر تمہیں لوگوں کے معاملات میں مصروف رکھے، تو یہ جان لو کہ وہ تمہیں بے وقعت کرنا چاہتا ہے۔ اگر دعا میں مشغول کرے، تو یقین کرو کہ وہ تمہیں نوازنا چاہتا ہے۔ اگر فائدہ مند علم میں مصروف کرے، تو وہ چاہتا ہے کہ تم اس کی معرفت حاصل کرو۔ اگر تمہیں جہاد فی سبیل اللہ میں لگائے، تو وہ تمہیں اپنے لیے چننا چاہتا ہے۔ اگر خدمت خلق اور بھلائی کے کاموں میں مشغول کرے ، تو جان لو کہ وہ تمہیں اپنی محبت والے کاموں میں لگا رہا ہے۔ اور اگر تمہیں غیر ضروری کاموں میں مصروف کرے ، تو سمجھو کہ تمہیں اپنی محبت سے نکال رہا ہے۔ اگر تمہیں دین میں تحریف یا ایسے کاموں میں مشغول رکھے جو اسکی نافرمانی کے ہوں تو جان لو کہ وہ تمہیں اپنی محبت سے محروم کر رہا ہے اور اگر تمہیں اپنے بندوں کو تکلیف اور اذیت پہنچانے میں مصروف رہنے دے، تو جان لو کہ تمہیں خیر سے محروم کیا جا رہا ہے لہذا، اپنے حال پر غور کرو کہ تم کس کام میں مشغول ہو، کیونکہ تمہارا مقام وہی ہے جہاں اللہ نے تمہیں مصروف رکھا ہے۔۔ اللّٰه اللّٰه اللّه _____📝📝📝_____ منقول ۔ انتخاب اسلامک ٹیوب پرو ایپ ۔

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

اسرائیل سے متعلق تین موقف

اسرائیل سے متعلق تین موقف

موجودہ دور میں اسرائیل سے متعلق تین موقف پائے جاتے ہیں : نمبر(۱) اسرائیل، امریکہ وغیرہ: ان کا موقف ہے کہ : بیت المقدس سمیت فلسطین کے جتنے حصے پر اسرائیل قابض ہے، وہ اسرائیل کا حصہ ہیں۔ جلا وطن کیے گئے فلسطینی جہاں کہیں جائیں، فلسطین میں اُن کی کوئی جگہ نہیں۔ بیت المقدس اسرائیل کا دارالحکومت ہوگا۔ نمبر (۲) ترکی ، اردن ، مصر: وہ اسلامی ممالک، جنھوں نے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے، اُن کا موقف یہ ہے کہ: ۱۹۴۸ء میں اقوام متحدہ نے جو رقبہ اور حدود اسرائیل کے لیے طے کیا تھا، اسرائیل اُن کے اندر رہے، بیت المقدس اور باقی فلسطین کو آزاد کرے۔ وہ اسرائیل کا حصہ نہیں ہے۔ نمبر (۳) پاکستان اور سعودیہ عرب وغیرہ: وہ ممالک جنھوں نے اسرائیل کے ناجائز وجود کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کیا۔ ان کا موقف یہ ہے کہ : یہودی پورے فلسطین پر غاصبانہ قبضہ ختم کریں، اُن کے پاس یورپی ممالک کی شہریتیں موجود ہیں۔ وہ ۱۹۲۲ء میں اور اس کے بعد جہاں جہاں سے اُٹھ کر فلسطین آئے تھے، وہاں واپس جائیں۔ اور قضیہ فلسطین کا حل ۱۹۴۸ء کے بجائے ۱۹۱۷ء کی پوزیشن پر حل کیا جائے ۔ جب خلافت عثمانیہ کی عملداری تھی اور فلسطین کے اندر کسی یہودی کو مستقل رہنے کی اجازت نہیں تھی۔ (ماہنامہ صفدر اکتوبر/ ص: ۱۰)