نبی ﷺ کا وجود ان تمام خوبیوں اور کمالات کا جامع تھا جومتفرق طور پر لوگوں کے مختلف طبقات میں پاۓ جاتے ہیں۔ آپ ﷺ اصابت فکر ، دور بینی اور حق پسندی کا بلند مینار تھے۔ آپ ﷺ کوحسن فراست ، پختگی فکر اور وسیلہ ومقصد کی درستگی سے حظ وافر عطا ہوا تھا۔ آپ ﷺ اپنی طویل خاموشی سے مسلسل غور وخوض، دائمی تفکیر اور حق کی کرید میں مدد لیتے تھے۔ آپ ﷺ نے اپنی شاداب عقل اور روشن فطرت سے زندگی کے صحیفے ، لوگوں کے معاملات اور جماعتوں کے احوال کا مطالعہ کیا۔ اور جن خرافات میں یہ سب لت پت تھیں ۔ ان سے سخت بیزاری محسوس کی۔ چنانچہ آپ ﷺ نے ان سب سے دامن کش رہتے ہوۓ پوری بصیرت کے ساتھ لوگوں کے درمیان زندگی کا سفر طے کیا۔ یعنی لوگوں کا جو کام اچھا ہوتا اس میں شرکت فرماتے ۔ ورنہ اپنی مقررہ تنہائی کی طرف پلٹ جاتے ۔ چنانچہ آپ ﷺ نے شراب کو کبھی منہ نہ لگایا۔ آستانوں کا ذبیحہ نہ کھایا۔ اور بتوں کے لئے منائے جانے والے تہوار اور میلوں ٹھیلوں میں کبھی شرکت نہ کی ۔ آپ ﷺ کو شروع ہی سے ان باطل معبودوں سے اتنی نفرت تھی کہ ان سے بڑھ کر آپ کی نظر میں کوئی چیز مبغوض نہ تھی حتی کہ لات وعز کی قسم سننا بھی آپ کو گوارا نہ تھا۔ اس میں شبہ نہیں کہ تقدیر نے آپ ﷺ پر حفاظت کا سایہ ڈال رکھا تھا۔ چنانچہ جب بعض دنیاوی تمتعات کے حصول کے لئے نفس کے جذبات متحرک ہوۓ یا بعض نا پسندیدہ رسم ورواج کی پیروی پر طبیعت آمادہ ہوئی تو عنایت ربانی دخیل ہو کر رکاوٹ بن گئی۔ ابن اثیر کی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اہل جاہلیت جو کام کرتے تھے مجھے دو دفعہ کے علاوہ کبھی ان کا خیال نہیں گذرا۔ لیکن ان دونوں میں سے بھی ہر دفعہ اللہ تعالی نے میرے اور اس کے درمیان رکاوٹ ڈال دی۔ اس کے بعد پھر کبھی مجھے اس کا خیال نہیں گذرا یہاں تک کہ اللہ نے مجھے اپنی پیغمبری سے مشرف فرمادیا۔ ہوا یہ کہ جو لڑکا بالائی مکہ میں میرے ساتھ بکریاں چرایا کرتا تھا اس سے ایک رات میں نے کہا کیوں نہ تم میری بکریاں دیکھو اور میں مکہ جا کر دوسرے جوانوں کی طرح وہاں کی شبانہ قصہ گوئی کی محفل میں شرکت کرلوں ۔ اس نے کہا ٹھیک ہے ۔اس کے بعد میں نکلا اور ابھی مکہ کے پہلے ہی گھر کے پاس پہنچا تھا کہ باجے کی آواز سنائی پڑی۔ میں نے دریافت کیا کہ کیا ہے ، لوگوں نے بتلایا کہ فلاں کی فلاں سے شادی ہے ۔ میں سننے بیٹھ گیا۔ اور اللہ نے میرا کان بند کر دیا اور میں سو گیا ۔ پھر سورج کی تمازت ہی سے میری آنکھ کھلی ۔ اور میں اپنے ساتھی کے پاس واپس چلا گیا۔ اس کے پوچھنے پر میں نے تفصیلات بتائیں ۔ اس کے بعد ایک رات پھر میں نے یہی بات کہی اور مکہ پہنچا تو پھراسی رات کی طرح کا واقعہ پیش آیا۔ اور اس کے بعد پھر کبھی غلط ارادہ نہ ہوا ۔ صحیح بخاری میں حضرت جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ جب کعبہ تعمیر کیا گیا تو نبی ﷺ اور حضرت عباس پتھر ڈھور ہے تھے۔ حضرت عباس نے نبی ﷺ سے کہا۔ اپنے تہبند اپنے کندھے پر رکھلو پھر سے حفاظت رہے گی۔ لیکن آپ زمین پر جا گرے۔ نگاہیں آسمان کی طرف اٹھ گئیں ۔افاقہ ہوتے ہی آواز لگائی میراتہبند۔ میراتہبند اور آپ کا تہبند آپ کو باندھ دیا گیا۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ اس کے بعد آپ کی شرمگاہ کبھی نہیں دیکھی گئی ۔ نبی ﷺ اپنی قوم میں شیریں کردار ، فاضلانہ اخلاق اور کریمانہ عادات کے لحاظ سے تو ممتاز تھے۔ چنانچہ آپ سب سے زیادہ با مروت ، سب سے خوش اخلاق ، سب سے معزز ہمسایہ سب سے بڑھ کر دوراندیش ، سب سے زیادہ راست گو سب سے نرم پہلو سب سے زیادہ پاک نفس، خیر میں سب سے زیادہ کریم ،سب سے نیک عمل سب سے بڑھ کر پابند عہد اور سب سے بڑے امانت دار تھے۔ حتی کہ آپ کی قوم نے آپ ﷺ کا نام ہی’’امین‘ رکھ دیا تھا۔ کیونکہ آپ احوال صالحہ اور خصال حمیدہ کا پیکر تھے ۔ اور جیسا کہ حضرت خدیجہ ﷺﷺ کی شہادت ہے ۔ آپ ﷺ درماندوں کا بوجھ اٹھاتے تھے ۔ تہی دستوں کا بندوبست فرماتے تھے۔ مہمان کی میزبانی کرتے تھے۔ اور مصائب حق میں اعانت فرماتے تھے۔

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

سیاح اور ماہی گیر کی سبق آموز کہانی

سیاح اور ماہی گیر کی سبق آموز کہانی

✍🏻ایک سیاح میکسیکو پہنچا، جہاں اس نے مقامی ماہی گیروں کی اعلیٰ مچھلیوں کی تعریف کی اور پوچھا: “انہیں پکڑنے میں کتنا وقت لگتا ہے؟” ماہی گیروں نے جواب دیا: “زیادہ نہیں!” سیاح نے حیرت سے پوچھا: “پھر تم زیادہ شکار کیوں نہیں کرتے؟ زیادہ مچھلیاں پکڑ کر زیادہ کما سکتے ہو!” ماہی گیروں نے مسکرا کر کہا: “ہمارا یہ شکار ہماری اور ہمارے خاندان کی ضروریات کے لیے کافی ہے۔” سیاح نے مزید پوچھا: “تو باقی وقت میں کیا کرتے ہو؟” انہوں نے جواب دیا: “ہم دیر تک سوتے ہیں، تھوڑا شکار کرتے ہیں، اپنے بچوں کے ساتھ کھیلتے ہیں، بیویوں کے ساتھ کھاتے ہیں، دوستوں کے ساتھ شام گزارتے ہیں اور خوش رہتے ہیں۔” سیاح جوش سے بولا: “میرے پاس ہارورڈ سے ماسٹرز ہے، میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں! اگر تم زیادہ شکار کرو، زیادہ بیچو، ایک بڑا جہاز خریدو، پھر دوسرا، تیسرا، یہاں تک کہ پورا بیڑہ بنا لو، تو ایک دن اپنی فیکٹری بھی کھول سکتے ہو! پھر گاؤں چھوڑ کر کسی بڑے شہر جاؤ، کاروبار کرو، اور کروڑوں کماؤ!” ماہی گیروں نے پوچھا: “یہ سب کرنے میں کتنا وقت لگے گا؟” سیاح: “بیس، پچیس سال!” ماہی گیر: “اور اس کے بعد؟” سیاح خوش ہو کر بولا: “پھر تم ریٹائر ہو سکتے ہو، کسی ساحلی گاؤں میں جا کر سکون سے زندگی گزار سکتے ہو، دیر تک سو سکتے ہو، بچوں کے ساتھ کھیل سکتے ہو، بیویوں کے ساتھ کھا سکتے ہو، اور شام دوستوں کے ساتھ گزار سکتے ہو۔” ماہی گیروں نے مسکرا کر جواب دیا: “یہ تو ہم ابھی بھی کر رہے ہیں! تو پھر پچیس سال کی مشقت کیوں؟” ⸻ زندگی کی دوڑ میں ہم اکثر خوشی کو ایک ایسی منزل سمجھتے ہیں جو محنت، دولت، اور کامیابی کے بعد ملے گی، مگر کبھی سوچا؟ کیا خوشی وہی نہیں جو ابھی ہمارے پاس ہے؟ ہم اپنی صحت، خاندان، اور آخرت کو پسِ پشت ڈال کر دن رات بھاگ دوڑ میں لگے رہتے ہیں، یہ سوچ کر کہ جب ہمارے پاس سب کچھ ہوگا، تب ہم خوش ہوں گے۔ مگر جب طاقت ختم ہو جائے، جوانی گزر جائے، موت سر پر آ کھڑی ہو، تو پھر وہ خوشی، جس کے لیے سب کچھ قربان کیا، کیا واقعی وہی خوشی ہوگی جس کی ہمیں تلاش تھی؟ زندگی کی خوبصورتی توازن میں ہے۔ نہ بے مقصد بھاگنا، نہ رک کر کھو جانا۔ بس ہر لمحہ جینا اور وہ خوشی محسوس کرنا، جو حقیقت میں ہمیشہ ہمارے قریب ہی تھی۔ ____📝📝📝____ 📌نقل و چسپاں ۔۔۔ انتخاب : اسلامک ٹیوب پرو ایپ ۔۔۔