راستے پر اگر کنکر ہوں تو انسان انہیں نظر انداز کر کے یا اچھا جوتا پہن کر آسانی سے چل سکتا ہے۔ ان کنکروں سے ہمیں کچھ دیر کے لیے تکلیف ہو سکتی ہے، لیکن ہمارا سفر جاری رہتا ہے اور ہم اپنے منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔ اگر ہم راستے کی مشکلات اور رکاوٹوں کو ذہانت اور ثابت قدمی سے عبور کریں، تو وہ ہمیں روک نہیں سکتیں۔ لیکن سوچیں کہ اگر ہمارے اپنے جوتے میں ایک چھوٹا سا کنکر آ جائے تو کیا ہوگا؟ اب اچھی سے اچھی سڑک بھی ہمارے لیے مشکل بن جاتی ہے۔ چلنا بظاہر آسان دکھائی دیتا ہے، لیکن ہر قدم ایک تکلیف کا باعث بنتا ہے۔ گویا یہ چھوٹا سا کنکر ہماری ہر کوشش کو برباد کر دیتا ہے اور ہمیں رکنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اسی طرح، زندگی میں اکثر ہم باہر کے مسائل کو بڑی آسانی سے حل کر لیتے ہیں، لیکن جب دل و دماغ میں کمزوریاں اور شک و شبہات بیٹھ جائیں، تو وہ ہمارے لیے بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ یہ اندرونی کمزوریاں، چاہے وہ خوف ہوں، مایوسی ہو، یا خود پر اعتماد کی کمی، ہمیں آگے بڑھنے سے روکتی ہیں۔ اس لیے، اصل کامیابی یہ ہے کہ ہم اپنے اندر کے کنکروں کو پہچانیں اور انہیں دور کرنے کی کوشش کریں۔ جب اندر سے مضبوط ہوں گے، تو باہر کے کنکر اور رکاوٹیں ہمیں کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹا سکیں گی۔ زندگی کی حقیقی جدوجہد یہی ہے کہ ہم اپنے اندرونی کمزوریوں پر قابو پا کر اپنی منزل کی جانب قدم بڑھائیں۔

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

یہ حالات بدلتے کیوں نہیں؟

یہ حالات بدلتے کیوں نہیں؟

محی السنہ حضرت شاہ ابرار الحق سے بعض حضرات نے شکایت کی کہ مسلمانوں کی پریشانیاں دن بدن بڑھتی ہی جا رہی ہیں ، خانقاہوں اور مدارس میں دعاؤوں کا خوب اہتمام ہو رہا ہے ، اللہ والے مسلسل اللہ کے حضور دعائیں کر رہے ہیں لیکن مسلمانوں کی پریشانیاں بڑھتی ہی جارہی ہیں ، حالات بد سے بدتر ہوتے ہی جا رہے ہیں تو اس وقت حضرت نے ایک مثال دے کر معاملہ یوں سمجھایا تھا کہ کسی شخص کا باپ اس سے ناراض ہو جائے اور اس کی ناراضگی کی وجہ سے اس پر اپنی عنایات کا سلسلہ بند کر دے اور وہ لڑکا اپنے والد سے معافی تلافی کے بجائے دوسروں سے کہتا پھرے کہ میرے والد مجھ سے ناراض ہیں آپ ان سے سفارش کر دیجئے کہ وہ مجھ سے راضی ہو جائیں اور پہلی سی محبت کا معاملہ کرنے لگیں اور خود براہ راست والد سے رجوع نہ کرے، نہ ان سے اپنے جرم کا اعتراف و اقرار کرے تو والد کی نظر عنایت اس پر کیسے ہوگی۔ اس وقت پوری امت کا المیہ یہی ہے کہ خالق کائنات کے حضور میں گستاخیاں اور جرائم کا ارتکاب تو خود کرتے ہیں اور ان کی معافی تلافی کے لئے اہل اللہ اور مشائخ سے دعائیں کراتے پھرتے ہیں، خود اللہ کے حضور توبہ واستغفار کی کوشش اور ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔ اللہ کی راہ اب بھی ہے کھلی، آثار و نشاں سب قائم ہیں اللہ کے بندوں نے لیکن اس راہ میں چلنا چھوڑ دیا (کتاب : ماہنامہ مظاہر علوم سہارنپور(نومبر) صفحہ نمبر: ۶ انتخاب: اسلامک ٹیوب پرو ایپ)