`رشتہ داروں سے پردہ میں کوتاہی:` ایک کوتاہی عورتوں میں یہ ہے کہ ان میں پردہ اہتمام کم ہے اپنے عزیزوں رشتہ داروں میں جو نامحرم ہیں(یعنی جن سے رشتہ ہمیشہ کے لئے حرام نہیں)ان کے سامنے بے تکلف آتی ہیں۔ ماموں زاد چچازاد خالہ زاد بھائیوں سے بالکل پردہ نہیں کرتیں۔ اور غضب یہ کہ ان کے سامنے بناؤ سنگھار کرکے بھی آتی ہیں۔ پھر بدن چھپانے کا ذرا بھی اہتمام نہیں کرتیں۔ گلا اور سر کھلا ہوا ہے اور ان کے سامنے آجاتی ہیں اور اگر کسی کا بدن ڈھکاہوا بھی ہوتو کپڑے ایسے باریک ہوتے ہیں جن میں سارا بدن جھلکتا ہے۔حالانکہ باریک کپڑے پہن کر محارم کے سامنے آنا بھی جائز نہیں۔کیونکہ محارم( جن سے رشتہ کرنا حرام ہے)ان سے پیٹ اور کمر اورپہلو اور پسلیوں کا چھپانا بھی فرض ہے۔پس ایسا باریک کرتہ پہن کر محارم (مثلاً بھائی،چچا وغیرہ) کے سامنے آنا بھی جائز نہیں جس سے پیٹ یا کمر یا پہلو یا پسلیاں ظاہر ہوں یا ان کا کوئی حصہ نظر آتا ہو۔ شریعت نے تو محارم کے سامنے آنے میں بھی اتنی قیدیں لگائی ہیں۔اور آج کل کی عورتیں نامحرموں کے سامنے بھی بیباکانہ آتی ہیں گویا شریعت کا پورامقابلہ ہے۔ بیبیو! پردے کا اہتمام کرو۔ اور نامحرم رشتہ داروں کے سامنے قطعاً نہ آؤ۔ اور محرم کے سامنے احتیاط سے آؤ۔ *حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ علیہ۔۔۔!!*

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

صدقہ صرف پیسے سے نہیں، دل سے بھی کیا جاتا ہے

صدقہ صرف پیسے سے نہیں، دل سے بھی کیا جاتا ہے

ایک غریب عورت نے بڑی عزت کے ساتھ آواز دی، "آ جائیے میڈم، آپ یہاں بیٹھ جائیں،" کہتے ہوئے اس نے اپنی سیٹ پر ایک استانی کو بیٹھا دیا اور خود بس میں کھڑی ہوگئی۔ میڈم نے، "بہت بہت شکریہ، میری تو بری حالت تھی، سچ میں،" کہتے ہوئے دعائیں دی. اس غریب عورت کے چہرے پر ایک خوشکن مسکان پھیل گئی۔ کچھ دیر بعد استانی کی پاس والی سیٹ خالی ہو گئی لیکن اس عورت نے ایک اور عورت کو، جو ایک چھوٹے بچے کے ساتھ سفر کر رہی تھی اور مشکل سے بچے کو اٹھا پارہی تھی، کو سیٹ پر بیٹھا دیا۔ اگلے پڑاؤ پر بچے والی عورت بھی اتر گئی، سیٹ پھر خالی ہوگئی، لیکن اس نیک دل عورت نے پھر بھی بیٹھنے کی بالکل کوشش نہیں کی بلکہ اس ایک کمزور اور بزرگ آدمی کو بیٹھا دیا، جو ابھی ابھی بس میں سوار ہوئے تھے۔ مزید کچھ دیر کے بعد وہ بزرگ بھی اتر گئے، سیٹ پھر سے خالی ہو گئی۔ بس میں اب چند مسافر ہی رہ گئے تھے، اب اس استانی نے غریب خاتون کو اپنے پاس بٹھایا اور پوچھا کہ "کتنی بار سیٹ خالی ہوئی لیکن آپ لوگوں کو بٹھاتی رہیں، خود نہیں بیٹھیں، کیا بات ہے؟ " اس خاتون نے جواب دیا "میڈم میں مزدور ہوں، میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ میں کچھ صدقہ و خیرات کرسکوں، تو میں کیا کرتی ہوں کہ، سڑک میں پڑے پتھروں کو اٹھا کر ایک طرف رکھ دیتی ہوں، کبھی کسی ضرورت مند کو پانی پلا دیتی ہوں، کبھی بس میں کسی کے لیے سیٹ چھوڑ دیتی ہوں. پھر جب سامنے والا مجھے دعائیں دیتا ہے تو میں اپنی غربت بھول جاتی ہوں، میری دن بھر کی تھکن دور ہو جاتی ہے۔ اور تو اور، جب میں روٹی کھانے کے لیے باہر بینچ پر بیٹھتی ہوتی ہوں، کچھ پرندے میرے قریب آ کر بیٹھ جاتے ہیں، میں روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے انکے سامنے ڈال دیتی ہوں. جب وہ خوشی سے چلاتی ہیں تو خدا کے ان مخلوق کو خوش دیکھ کر میرا پیٹ بھر جاتا ہے۔ روپے پیسے نہ سہی، سوچتی ہوں دعائیں تو مل ہی جاتی ہوں گی، مفت میں، فائدہ ہی ہے نا، اور ہمیں کیا ہی لے کر جانا ہے اس دنیا سے"۔ استانی ہکا بکا رہ گئی، ایک ان پڑھ سی دکھنے والی غریب عورت نے اتنا بڑا سبق جو پڑھا گئی انہیں۔ اگر دنیا کے آدھے لوگ بھی ایسی خوبصورت اور مثبت سوچ اپنا لیں تو یہ زمین جنت بن جائے گی سب کے لئے۔ صدقہ و خیرات صرف پیسے سے نہیں دل سے بھی کیا جاتا ہے۔ _______________________________________ منقول۔ انتخاب : اسلامک ٹیوب پرو ایپ