امانت داری کا انعام کسی شہر کا امیر و رئیس شادی کرنا چاہ رہا تھا۔ اس نے شہر بھر میں اعلان کرا دیا کہ شہر کی تمام نوجوان لڑکیاں فلاں روز ہمارے دربار میں حاضر ہو جائیں ؛ تاکہ میں جسے چاہوں ، اسے اپنی شریکِ حیات کے طور پر منتخب کر سکوں۔ اعلان سننا تھا کہ حسینانِ شہر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ شہر کی تمام نوجوان لڑکیاں بن سنور کر متعین دن میں امیر کے دربار میں حاضر ہوگئیں۔ دوسری طرف ایک لڑکی جو امیرِ شہر کی ایک معمولی سی خادمہ کی بیٹی تھی ، پہلے ہی سے امیرِ مذکور پر فریفتہ تھی۔ اعلان سننے کے بعد اس کے سر میں سودا سما گیا کہ شاید وہ اس امیر کی بیوی بن سکتی ہے۔ وہ رئیس کی محبت میں دیوانی ہوئی جا رہی تھی۔ لڑکی کا یہ عجیب حال دیکھ کر اس کی بوڑھی ماں رنجیدہ تھی۔ ماں نے بیٹی کو سمجھایا کہ ' بیٹی ، امیرِ شہر کسی امیر اور رئیس کی بیٹی کو اپنی بیوی بنائے گا ، تم کو گھاس نہیں ڈالے گا'۔ بیٹی نے جواب دیا کہ 'ماں! آپ پریشان مت ہوئیے ، کم از کم دربار میں تو حاضر ہو جاؤں ، پھر جو ہوگا ، دیکھا جائے گا‌۔ لڑکی دربار میں حاضر ہوئی۔ کچھ دیر بعد رئیس بھی جلوہ افروز ہوگیا۔ اس نے سب کا استقبال کیا۔ پھر اس نے تمام لڑکیوں کو مخاطب کر کے کہا کہ :'میں تمہارے درمیان ابھی گلاب کے بیج تقسیم کروں گا ، تم ان کو زمین میں بونا اور چھ ماہ بعد جب دوبارہ میرے پاس آنا ، تو اپنے ہاتھ میں گلاب کے پھول لے کے آنا'۔ تمام حسینانِ شہر اور خادمہ کی لڑکی بھی امیر شخص سے گلاب کا بیج لے کر اپنے گھر چلی گئی۔ چھ ماہ گزر گئے ؛ لیکن پھول کیا ، پودا بھی نہیں اگا۔ لڑکی نے جوں کا توں بیج کو زمین سے نکالا ، اور امیرِ شہر کے دربار میں حاضری کی تیار کرنے لگی۔ ماں نے بیٹی کو سمجھایا کہ 'بیٹی ، اب امیر کے دربار میں جانے کا کوئی فائدہ نہیں ؛ بلکہ اندیشہ ہے کہ تم وہاں سے شکستہ خاطر واپس آؤ'۔ بیٹی نے جواب دیا کہ 'امی ، آپ مجھے جانے دیجیے ، میں اسی خشک بیج کو لے کر رئیس کے دربار میں حاضر ہوؤں گی ، کچھ نہیں ، تو کم از کم رئیس کے دیدار کا تو موقع ملے گا۔ دیوانی لڑکی کی باتوں اور حرکتوں سے ماں تنگ ہو چکی‌ تھی‌‌۔ اس نے عاجز آ کر لڑکی کو اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ تمام حسینانِ شہر اپنے ہاتھوں میں تازہ بہ تازہ ، خوب صورت اور شگفتہ گلاب کے پھول لیے حاضر تھیں ، اور یہ لڑکی وہی مردہ بیچ لیے کہیں کھڑی۔ امیرِ شہر نے ہر طرف نگاہ دوڑائی ، تو ایک لڑکی پر جا کر اس کی نگاہ ٹھہر گئی۔ اس نے لڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں اس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ یہ وہی لڑکی تھی جو گلاب کے تازے پھول کے بجائے مردہ بیج لیے حاضر ہوئی تھی۔ حسینانِ شہر کی چیخیں نکل گئیں۔ بولیں کہ 'یہ کیسا ستم ہے کہ پھول تو لیے ہم حاضر ہوئے ہیں ، اور امیرِ شہر شادی اس لڑکی سے کریں گے ، جس کے ہاتھ میں پھول کے بجائے ایک مردہ سا بیج ہے! رئیس نے لڑکیوں کا ہنگامہ فرو کیا ، سب کو خاموش کیا ، اور کہا کہ : اصل بات یہ ہے کہ میں نے تم سب کو جو بیج دیے تھے ، وہ اگنے والے نہیں تھے۔ تم نے بہ کمالِ عیاری دوسرے بیجوں سے گلاب اگائے ، اور میرے دربار میں لے آئے۔ تم نے ایمان داری کے بجائے بے ایمانی کا ثبوت دیا۔ اور اس لڑکی نے میرے ہی دیے ہوئے بیج سے پودا اگانے کی کوشش کی۔ نہیں اگا ، تو وہ میرا ہی بیج لے کر حاضر ہوگئی۔ اس نے ایمان داری اور سچائی کا ثبوت دیا۔ میں ایمان دار لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں ، بے ایمان حسیناؤں اور نازنینوں سے نہیں'۔ پھر امیرِ شہر نے شان و شوکت سے اس لڑکی سے شادی رچائی ، اور یوں ایک غریب زادی امیرِ شہر کی بیوی بن گئی۔ اس کہانی سے ایک سبق یہ ملتا ہے کہ سچائی اور ایمان داری انسان کو کہیں سے کہیں پہنچا سکتی ہے۔ دوسرا سبق یہ ملتا ہے کہ اصل چیز امانت داری ہے ، حسن و خوب صورتی ثانوی درجے کی چیز ہے۔ (ایک عربی تحریر کی ترجمانی) ترجمانی : خالد سیف اللہ صدیقی

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

امام محمد رحمہ اللہ تعالٰی

امام محمد رحمہ اللہ تعالٰی

امام محمد ؒ کے نام سے کون ناواقف ہے، انہی کی کتابوں نے حنفی فقہ کو مدوّن کیا، مسائل کے دلائل جمع کئے، اختلافی اقوال ذکر کئے اور دنیا کے اکثر خطوں میں رائج فقہ حنفی تصنیفی شکل میں امت مسلمہ کے سامنے پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ـ مطالعہ ان کی طبیعت ثانیہ بن چکا تھا، علم ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا اور اسی میں وہ منہمک رہتے، کتابوں کا ڈھیر ارد گرد لگا رہتا، رات سوتے نہ تھے،طشت میں پانی رکھا رہتا، نیند آتی تو پانی سے زائل کرتے، ایک موضوع سے اکتا جاتے، دوسرا شروع کردیتے ـ (¹) مجھے ڈرا نہیں سکتی فضا کی تاریکی مری سرشت میں ہے پاکی و درخشانی تو اے مسافر شب! خود چراغ بن اپنا کر اپنی رات کو داغ جگر سے نورانی لوگوں نے اس شب بیداری کی وجہ پوچھی تو فرمانے لگے: " میں کیسے سو رہوں جب کہ عام مسلمان ہم پر اعتماد کر کے سو رہے ہیں کہ ہم ان کی رہنمائی کریں گے ـ"(²) گھر والوں سے کہہ رکھا تھا کہ دنیوی ضروریات کے سلسلہ میں مجھ سے بات نہ کریں ـ اس بارے میں میرے وکیل سے کہہ دیا کریں، تاکہ میرے علم و مطالعہ کی یکسوئی میں خلل نہ آئے ـ (⁴) علم و مطالعہ کی یکسوئی میں امکان بھر کوشش کرتے کہ کوئی مخل نہ ہو، ان کے گھر میں ایک مرغ تھا جس کی بانگ کسی وقت کی پابند نہ تھی کسی بھی وقت جی چاہتا نالاں ہوجاتا، امام نے ایک دن پکڑ کر یہ کہتے ہوئے ذبح کیا کہ یہ خوا مخواہ میرے علم و مطالعہ میں مخل بنا ہوا ہے ـ فرماتے تھے: لَذَّاتُ الْأَفْكَارِ خَيْرٌ مِنْ لَذَّاتِ الْأَبْكَارِ (⁵) " فکر و نظر کی لذتوں کے سامنے دوشیزاؤں کی لذتیں کچھ بھی نہیں ـ" امام محمدؒ نے نو سو نناوے کتابیں لکھیں (⁶) امام احمد بن حنبلؒ سے پوچھا گیا کہ یہ دقیق مسائل آپ کو کہاں سے حاصل ہوئے ـ فرمانے لگے "محمد بن الحسن کی کتابوں سے"(⁷) امام محمدؒ نے جو مسائل قرآن و سنت اور اجماع سے مستنبط کئے ان کی تعداد دس لاکھ ستر ہزار ایک سو بتائی گئی ہے ـ (⁸) ہارون رشید کے ساتھ " رے " کی طرف گئے، وہیں انتقال فرمایا، اسی دن مشہور نحوی امام کسائی کا بھی انتقال ہوا، دفن کرنے کے بعد ہارون رشید نے کہا ـ دَفَنَّا اليوم اَللُّغَتَه وَالفِقۃ " آج ہم نے لغت و فقہ دونوں کو دفن کردیا ـ" آپ کی وفات ۱۸۹ھ میں ہوئی ـ عمر عزیز کی ۵۸ بہاریں دیکھنی نصیب ہوئیں ـ (۱۰) ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ❶ مفتاح السعادة جلد ۱ صفحہ ۲۳ ❷ مناقب کردی صفحہ ۴۳۶ ❹ دیکھئے تاریخ بغداد جلد۴ صفحہ ۱۷۶ ❺ حدائق الحنفیہ صفحہ ۷۶ ❻ الجواہر المضیئہ جلد ۱ صفحہ ۷۶ ❼ دیکھئے سیر اعلام النباء جلد۹ صفحہ ۱۳۶ ❽ حدائق الحنفیہ جلد ۴ ص: ۱۳۰ ۱۰ دیکھئے تاریخ بغداد جلد ۲ ص ۱۸۱ نیز الاعلام للزر کلی جلد ۶ صفحہ ۸۰ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ کتاب : متاعِ وقت اور کاروانِ علم (صفحہ نمبر ۱۵۶ تا ۱۵۸) مصنف : ابن الحسن عباسی ؒ ناقل : اسلامک ٹیوب پرو ایپ مزید قیمتی مضامین کے لیے ہمارے واٹسپ چینل کو فالو کریں