السلام علیکم اسلامی تاریخ قسط نمبر 1 اللہ تعالٰی نے قلم کو پیدا کیا اللہ تعالٰی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔ ہر چیز کو اللہ تعالٰی ہی نے پیدا کیا ہے اور ایک دن اسی کے حکم سے ساری کائنات ختم ہو جائے گی ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ ہر چیز ختم ہو جائے گی اور صرف آپ کے عزت و بزرگی والے رب کی ذات باقی رہے گی ۔ ( سورۂ رحمٰن 26 تا 27 ) حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: " ( اس دنیا کی تمام چیزوں میں ) سب سے پہلے اللہ تعالٰی نے قلم کو پیدا فرمایا اور اسے لکھنے کا حکم دیا ، اس نے عرض کیا: اے میرے رب ! میں کیا لکھوں ؟ اللہ تعالٰی نے اسے قیامت تک کی پوری کائنات کی تقدیر لکھنے کا حکم دیا۔" ( ابوداؤد : 4700 ) پھر اس نے اس وقت سے قیامت تک ہونے والی تمام چیزوں کو لکھ دیا ۔ ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : " اللہ تعالٰی نے مخلوق کی تقدیر کو زمین و آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے لکھا ہے۔" ( مسلم : 6748 ) اُس وقت سے قیامت تک دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے یا ہو گا ، قلم ان چیزوں کو بحکم خداوندی پہلے ہی لکھ چکا ہے ۔

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

علّامہ اِقبال اور جذبہ اطاعت رسول

علّامہ اِقبال اور جذبہ اطاعت رسول

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے سنت رسول کی پیروی کو اپنا شیوہ حیات بنالیا تھا۔ جوہر اقبال میں ایک عجیب اور بصیرت افروز واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ جس سے علامہ اقبال کے جذبہ شوق و اطاعت رسول کا اندازہ ہوتا ہے۔ لکھتے ہیں کہ پنجاب کے ایک دولت مند رئیس نے ایک قانونی مشورے کے لیے اقبال اور سر فضل حسین اور ایک دو مشہور قانون دان اصحاب کو اپنے ہاں بلایا، اور اپنی شاندار کوٹھی میں ان کے قیام کا انتظام کیا۔ رات کو جس وقت اقبال اپنے کمرے میں آرام کرنے کے لیے گئے تو ہر طرف عیش و تنعم کے سامان دیکھ کر، اور اپنے نیچے نہایت نرم اور قیمتی بستر پا کر معا ان کے دل میں یہ خیال آیا کہ جس رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتیوں کے صدقے میں آج ہم کو یہ مرتبے حاصل ہوئے ہیں، اس نے بوریے پر سوکر زندگی گزار دی تھی ۔ یہ خیال آنا تھا کہ آنسوؤں کی جھڑی بندھ گئی۔ اسی بستر پر لیٹنا ان کے لیے ناممکن ہو گیا۔ اٹھے اور برابر کے غسل خانے میں جا کر ایک کرسی پر بیٹھ گئے، اور مسلسل رونا شروع کر دیا۔ جب ذرا دل کو قرار آیا تو اپنے ملازم کو بلوا کر اپنا بستر کھلوایا ، اور ایک چار پائی اسی غسل خانے میں بچھوائی۔ اور جب تک وہاں مقیم رہے، غسل خانے ہی میں سوتے رہے۔ یہ وفات سے کئی برس پہلے کا واقعہ ہے۔ (محمد حسنین سید۔ جوہر اقبال - ص 39-40، مطبوعہ مکتبہ جامعہ دہلی 1938)(ماہنامہ صدائے اسلام/ستمبر/۲۰۲۴)