چائے والے نے اپنے کاؤنٹر پر لکھوایا..... "میں بھلے ہی عام ہوں مگر چائے اسپیشل بناتا ہوں"۔😄 ایک ریسٹورینٹ نے سب سے الگ فقرہ لکھوایا...... "یہاں گھر جیسا کھانا نہیں ملتا، آپ اطمینان سے تشریف لائیں۔"😊 الیکٹرونک دوکان پر سلوگن پڑھا تو دم بہ خود رہ گیا... "اگر آپ کا کوئی فین نہیں ہے تو یہاں سے لے جائیں۔"😅 گول گپے کے ٹھیلے پر یوں لکھا تھا..... "گول گپے کھانے کے لئے دِل بڑا ہو نہ ہو، مونہہ کا بڑا ہونا ضروری ہے، پورا کھولیں۔"😂 پھل والے کے یہاں تو غضب کا فقرہ لکھا دیکھا.... "آپ تو بس صبر کریں، پھل ہم دے دیں گے۔"😔 گھڑی کی دوکان پر بھی ایک زبردست فقرہ دیکھا... "بھاگتے ہوئے وقت کو اپنے بس میں رکھیں، چاہے دیوار پر ٹانگیں، یا ہاتھ پر باندھیں۔"😀 بالوں کی ایک کمپنی نے تو اپنے ہر پروڈکٹ پر لکھ دیا ھم بھی بال بال بچاتے ھیں😆 اور ایک دندان ساز کا لکھا فقرہ پڑھا تو ہنسی آ گئی "دانت کوئی بھی توڑے لگا ہم دیں گے🤪" ایک دوکان کے شٹر پر لکھا دیکھا "دوکان کے اوقات کار: صبح 9 سے شام 6 تک، ہم اپنی اوقات میں رہتے ہیں."

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

​حکمران ہو تو ایسا! گورنرِ مدائن حضرت سلمان فارسی کی بے مثال خاکساری

​حکمران ہو تو ایسا! گورنرِ مدائن حضرت سلمان فارسی کی بے مثال خاکساری

حضرت سلمان فارسی بہت بڑے صحابی تھے ، تمام صحابہ کرام میں آپ نے سب سے زیادہ عمر پائی ہے ، آپ سبھی لوگوں کی خدمت کرتے اور بہت سیدھی سادی زندگی گزارتے تھے ۔ حضرت عمرؓ نے اپنی حکومت کے زمانے میں ان کو شہر مدائن کا گورنر بنا دیا؛ لیکن حضرت سلمان فارسی کی سادگی کی وجہ سے نئے لوگ انھیں دیکھ کر سمجھ ہی نہیں پاتے تھے کہ یہ شہر مدائن کے گورنر ہیں ؛ بلکہ ان کو ایک عام آدمی سمجھ کر ان سے خدمت بھی لے لیا کرتے تھے اور حضرت سلمان فارسی بھی گورنر ہونے کے باوجود بلا کسی شرم کے ان کی خدمت کر دیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ کی بات ہے کہ حضرت سلمان فارسی ایک عام آدمی کی طرح مدائن کی سڑک پر گھوم رہے تھے ۔ ملک شام کا ایک تاجر اپنی تجارت کا سامان بیچنے کے لیے مدائن آرہا تھا ۔ اس تاجر نے حضرت سلمان فارسی کو دیکھ کر سمجھا کہ یہ کوئی مزدور ہے ؛ اس لیے ان کو بلایا اور کہا کہ میرا سامان اٹھا کر فلاں جگہ لے چلو ، حضرت سلمان فارسی بھی بغیر کسی شرم کے اس تاجر کا سامان اٹھا کر چل دیئے ۔ کچھ دیر بعد جب مدائن کے شہریوں نے حضرت سلمان فارسی کو سامان اٹھائے ہوئے دیکھا ، تو اس شامی تاجر سے کہا : ارے ! یہ تو مدائن کے گورنر ہیں ! تو ان سے بوجھ اٹھوا رہا ہے ! یہ سن کر وہ تاجر گھبرا گیا اور شرمندہ ہو کر حضرت سلمان فارسی سے درخواست کرنے لگا : حضرت ! میں آپ کو پہچان نہیں سکا ؛ اس لیے آپ کے ساتھ یہ گستاخی ہو گئی ، مجھے معاف فرما دیں اور سامان مجھے دے دیں ، میں خود لے کر چلا جاؤں گا؛ لیکن حضرت سلمان فارسی اپنے سر سے سامان اتارنے کے لیے بلکل تیار نہ ہوئے ؛ بلکہ فرمایا : میں نے ایک نیکی کی نیت کر لی ہے ، جب تک وہ پوری نہ ہوگی ، یہ سامان نہیں اتاروں گا ، پھر انھوں نے وہ سامان اس کے ٹھکانے تک پہنچا دیا(طبقات ابنِ سعد البصری: ۵/۶۸) _____________📝📝📝_____________ منقول۔ انتخاب : اسلامک ٹیوب پرو ایپ ۔