
بہار ووٹر لسٹ تنازعہ: الیکشن کمیشن کا 2003 کے ایس آئی آر آرڈر کی کاپی دینے سے انکار، شفافیت پر سوالات
ہندوستان کے الیکشن کمیشن نے بہار میں 2003 کے اسپیشل انٹینسو ریویژن (ایس آئی آر) کے آرڈر کی کاپی حق اطلاعات (آر ٹی آئی) کے تحت دینے سے انکار کر دیا، جس سے شفافیت پر سنگین سوالات اٹھے ہیں۔ کمیشن نے اس کے بجائے جون 2025 کے موجودہ آرڈر کا لنک فراہم کیا، جبکہ اپوزیشن اور کارکن اس عمل کو جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ واقعات کی تفصیلات شفافیت کی کارکن انجلی بھاردواج نے آر ٹی آئی کے ذریعے 2003 کے بہار ایس آئی آر کے آرڈر، رہنما خطوط، فارم، اور دستاویزات کی فہرست مانگی تھی، جو الیکشن کمیشن نے 27 اگست 2025 کو مسترد کر دی۔ کمیشن نے 24 جون 2025 کے آرڈر کا لنک دیا، جو ویب سائٹ پر پہلے سے موجود ہے، اور کہا کہ اس کے علاوہ کوئی معلومات نہیں۔ یہ آرڈر 2003 کی تفصیلات سے خالی ہے، جو سپریم کورٹ میں 21 جولائی 2025 کے حلف نامے میں بھی حوالے کے طور پر پیش کیا گیا، لیکن اس کی کاپی منسلک نہیں کی گئی۔ 2003 کے ایس آئی آر میں شہریت ثابت کرنے کے لیے چار دستاویزات (این آر سی، شہریت سرٹیفکیٹ، پاسپورٹ، یا پیدائش کا سرٹیفکیٹ) مانگی گئی تھیں، جبکہ 2025 کے عمل میں 11 دستاویزات طلب کی گئی ہیں، جن میں آدھار، راشن کارڈ، یا ووٹر کارڈ شامل نہیں۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ سخت شرائط بہار کے غریب اور ہجرت کرنے والے ووٹروں کو ووٹنگ سے محروم کر سکتی ہیں۔ سپریم کورٹ میں جاری مقدمات میں اپوزیشن رہنما، بشمول منوج جھا اور یوگینڈر یادو، نے الزام لگایا کہ 1 اگست 2025 کو شائع ڈرافٹ رول سے 65 لاکھ ووٹروں کے نام ہٹائے گئے، جن میں 22 لاکھ مبینہ طور پر فوت شدہ، 7 لاکھ دوہرے رجسٹرڈ، اور 35 لاکھ ہجرت یا ناقابل تعاقب قرار دیے گئے۔ ایڈووکیٹ پرشانت بھوشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے حذف شدہ ووٹروں کی فہرست اور وجوہات شیئر نہیں کیں، جبکہ بوتھ لیول ایجنٹس (بی ایل ایز) کو بھی معلومات سے محروم رکھا گیا۔ آر ٹی آئی کارکن وینکٹیش نایک نے الیکشن کمیشن سے غیر قانونی ووٹروں کو شامل کرنے والے الیکشن افسران کے خلاف کارروائی کی تفصیلات مانگیں، لیکن کمیشن نے کوئی ریکارڈ نہ ہونے کا دعویٰ کیا۔ بھاردواج نے کہا کہ ملک گیر ایس آئی آر کے فیصلے سے متعلق کوئی فائل یا آزادانہ تجزیہ کمیشن کے پاس نہیں، جو اس کی ساکھ کو مجروح کرتا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار نے 17 اگست 2025 کو کہا کہ 2003 کی طرح یہ عمل معمول کا ہے، لیکن 2003 کے برخلاف، 2025 کا عمل انتخابات سے چند ماہ قبل اور سیلاب کے موسم میں کیا جا رہا ہے، جو تنقید کا باعث بنا۔ سپریم کورٹ نے 12 اگست 2025 کو کہا کہ اگر ’مردہ‘ قرار دیے گئے ووٹر زندہ پائے گئے تو وہ فوری مداخلت کرے گی۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کو ہدایت دی کہ حذف شدہ ووٹروں کو نوٹس اور سماعت کا موقع دیا جائے، لیکن اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ عمل شہریت کی چھان بین کا ’مبہم‘ طریقہ ہے، جو لاکھوں کو ووٹ سے محروم کر سکتا ہے۔ ’’الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے، لیکن اس کی خاموشی اور غیر شفاف رویہ جمہوریت کے لیے زہر ہے۔‘‘ — انجلی بھاردواج حوالہ جات دی وائر، دیکن ہیرالڈ، ہندو، منی لائف، مدھیاما آن لائن، ایکس پوسٹ