
امروہہ میں نکی بھاٹی جیسا واقعہ! کانسٹیبل نے اہل خانہ کے ساتھ مل کر بیوی کو زندہ جلا دیا، حالت نازک، دہلی ریفر
امروہہ میں انسانیت سوز واقعہ: بیوی کو زندہ جلانے کی سفاکانہ کوشش امروہہ کے گاؤں نارنگ پور، جو ڈیڈولی تھانہ کے تحت آتا ہے، منگل کے دن ایک ایسی دل دہلا دینے والی خبر کا مرکز بنا جس نے انسانیت کے سر کو شرم سے جھکا دیا۔ یوپی پولیس کے ایک کانسٹیبل دیویندر اور اس کے اہل خانہ نے مل کر اپنی بیوی پارول کو زندہ جلانے کی وحشیانہ کوشش کی۔ پارول، جو محکمہ صحت میں بطور جی این ایم خدمات انجام دیتی ہیں، اس وقت دہلی کے ایک اسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہیں، جہاں ان کی حالت بدستور نازک ہے۔ پولیس نے ملزم کانسٹیبل دیویندر، اس کے بھائی سونو، والد گجیش، ماں انیتا، جتیندر اور سنتوش کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے، لیکن تمام ملزمان واقعہ کے بعد سے فرار ہیں اور پولیس ان کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ واقعہ کی تفصیلات پارول کی ماں انیتا کے مطابق، ان کی بیٹی کی شادی 13 برس قبل دیویندر سے ہوئی تھی۔ ان کے دو جڑواں بچے، ایک بیٹا اور ایک بیٹی، اس جوڑے کی زندگی کا حصہ ہیں۔ پڑوسیوں کے فون نے انیتا کو اس دل خراش واقعہ کی اطلاع دی۔ جب وہ موقع پر پہنچیں تو پارول شدید جھلسے ہوئے جسم کے ساتھ درد سے کراہ رہی تھیں۔ فوری طور پر انہیں اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں سے ان کی نازک حالت کے باعث دہلی کے اعلیٰ طبی مرکز میں ریفر کر دیا گیا۔ اس گناہ کی مذمت یہ واقعہ محض ایک جرم نہیں، بلکہ انسانیت کے خلاف ایک سنگین بغاوت ہے۔ ایک عورت، جو اپنے فرائض منصبی نبھاتی ہے، ایک ماں، جو اپنے بچوں کی پرورش کرتی ہے، اور ایک بیوی، جو اپنے خاندان کی خدمت میں مصروف تھی، اسے اس قدر بے دردی سے نشانہ بنایا گیا کہ انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ یہ عمل نہ صرف قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ اخلاقی اقدار اور انسانی حقوق کی کھلی پامالی ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے: “اور جو کوئی کسی انسان کو ناحق قتل کرے، گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا” (سورۃ المائدہ: 32)۔ اس آیت کی روشنی میں، پارول کے ساتھ کیے گئے اس ظلم کو ایک ایسی سفاکی سمجھا جا سکتا ہے جو پوری انسانیت پر حملہ ہے۔ اگر یہ گناہ ایک مسلمان نے کیا ہوتا یہ سوچ کر دل کانپ جاتا ہے کہ اگر اس گناہ کا مرتکب کوئی مسلمان ہوتا تو “گودی میڈیا” اسے کس قدر واویلا مچاتا۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک منظم پروپیگنڈا شروع ہو جاتا، جیسے یہ جرم کسی فرد کا نہیں بلکہ پوری امت کا عمل ہو۔ سرخیاں چیخ چیخ کر اسلام کو بدنام کرتیں، اور سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مہمات کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوتا۔ لیکن جب ملزم ایک غیر مسلم ہے، تو میڈیا کی خاموشی اور اس واقعہ کو صرف ایک “گھریلو تنازع” کے طور پر پیش کرنے کی کوشش ایک منافقانہ رویے کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ دوہرا معیار نہ صرف صحافتی اصولوں کی توہین ہے بلکہ معاشرے میں تقسیم اور نفرت کو فروغ دیتا ہے۔ اپیل اور دعا ہماری دعا ہے کہ پارول کو جلد صحت یابی نصیب ہو اور انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ قانون کو اپنا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور ملزمان کو ان کے اس گھناؤنے جرم کی سزا ملنی چاہیے۔ ہم سب سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس واقعہ کی مذمت کریں اور معاشرے میں عورتوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے آواز اٹھائیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم سب مل کر ایک ایسی دنیا بنائیں جہاں عزت، انصاف اور انسانیت کی قدر ہو، نہ کہ نفرت اور ظلم کی۔ حوالہ جات انڈیا ٹوڈے، دی ہندو، ٹائمز آف انڈیا، ہندوستان ٹائمز، دی انڈین ایکسپریس، ایکس پوسٹ