
روس کا یوکرین پر سال کا تیسرا بڑا فضائی حملہ: 570 سے زائد ڈرونز اور 40 میزائل داغے گئے
روس اور یوکرین کے درمیان گزشتہ چار سال سے جاری تنازع ایک بار پھر شدت اختیار کر گیا ہے۔ روس نے یوکرین کے مغربی علاقوں پر سال 2025 کا تیسرا سب سے بڑا فضائی حملہ کیا، جس میں 574 ڈرونز اور 40 میزائلوں کا استعمال کیا گیا۔ یوکرین کے وزیر خارجہ اینڈری سیبیہا نے انکشاف کیا کہ اس حملے میں ایک امریکی الیکٹرانکس کمپنی کو بھی نشانہ بنایا گیا، جو مغربی یوکرین میں واقع ہے۔ یہ علاقہ جنگ کے محاذ سے کافی دور ہے اور یوکرین کے مغربی اتحادیوں کی فوجی امداد کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ اس حملے نے نہ صرف یوکرین بلکہ عالمی امن کی کوششوں پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ آئیے، اس خبر کو اردو ادب کے شائستہ و بلیغ اسلوب میں سمجھتے ہیں، جو نہ صرف حقائق پیش کرے گا بلکہ اس کے سیاسی و انسانی مضمرات کو بھی اجاگر کرے گا۔ حملے کی ہولناکی: ڈرونز اور میزائلوں کی بارش یوکرینی فضائیہ نے جمعرات، 21 اگست 2025 کو بتایا کہ روس نے راتوں رات 574 ڈرونز اور 40 بیلسٹک و کروز میزائلوں کے ساتھ یوکرین پر حملہ کیا۔ یہ سال کا تیسرا سب سے بڑا ڈرون حملہ اور میزائلوں کے لحاظ سے آٹھواں سب سے بڑا حملہ تھا۔ یوکرینی حکام کے مطابق، یہ حملے زیادہ تر مغربی یوکرین کے علاقوں پر مرکوز تھے، جہاں ایک شخص ہلاک اور 15 زخمی ہوئے۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ماسکو پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ روس جنگ ختم کرنے کے لیے سنجیدہ نہیں دکھائی دیتا۔ انہوں نے ایکس پر لکھا: "روس نے رات بھر 574 ڈرونز اور 40 میزائلوں سے حملہ کیا۔ یہ حملے امن کی کوششوں کے باوجود جاری ہیں۔" — @ZelenskyyUa زیلنسکی نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ روس کے صدر ولادیمیر پوتن سے کسی غیر جانبدار ملک، جیسے سوئٹزرلینڈ، آسٹریا یا ترکی، میں ملاقات کے خواہشمند ہیں، لیکن ہنگری کے رویے کی وجہ سے بوڈاپیسٹ میں ملاقات کا امکان مسترد کر دیا گیا۔ امریکی کمپنی پر حملہ: ایک نیا تنازع یوکرین کے وزیر خارجہ اینڈری سیبیہا نے بتایا کہ مغربی یوکرین میں ایک "بڑی امریکی الیکٹرانکس کمپنی" کو نشانہ بنایا گیا، لیکن انہوں نے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ زیلنسکی نے واضح کیا کہ یہ کمپنی گھریلو آلات بناتی ہے۔ مغربی یوکرین جنگ کے محاذ سے دور ہے اور یورپی و امریکی اتحادیوں کی فوجی امداد کا اہم مرکز سمجھا جاتا ہے۔ اس حملے کو روس کی جانب سے مغربی امداد کے ڈپوؤں کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ دی اکنامک ٹائمز کے مطابق، اس حملے سے یوکرین کی دفاعی صلاحیت پر براہ راست اثر پڑ سکتا ہے، کیونکہ مغربی امداد کے ذخائر کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ امن کی ناکام کوششیں: الاسکا سے واشنگٹن تک روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کو روکنے کی کوششیں الاسکا سے واشنگٹن تک جاری ہیں، لیکن کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے حال ہی میں الاسکا میں ولادیمیر پوتن سے ملاقات کی، جو بے نتیجہ رہی۔ اس کے بعد زیلنسکی نے واشنگٹن میں ٹرمپ اور یورپی رہنماؤں سے ملاقات کی، لیکن امن مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔ زیلنسکی نے کہا کہ وہ اگلے دس دنوں میں سیکیورٹی گارنٹی کے ڈھانچے کو حتمی شکل دینے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کے بعد پوتن سے براہ راست مذاکرات ممکن ہو سکتے ہیں۔ تاہم، روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ روس کے بغیر سیکیورٹی مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکتے۔ یوکرین کا جوابی حملہ: روس کو بھاری نقصان اس سے قبل جون 2025 میں، یوکرین کی اسپیشل فورسز نے روس کے فضائی اڈوں پر حملہ کیا تھا، جس میں 41 رشین بمبار طیاروں اور 30 فیصد سے زائد رڈار سسٹمز کو تباہ کر دیا گیا تھا۔ یہ حملہ روس کے 477 ڈرونز اور 60 میزائلوں کے حملے کا جواب تھا، جس میں یوکرینی فضائیہ نے 249 ہتھیاروں کو تباہ اور 226 کو الیکٹرانک جیمنگ کے ذریعے ناکام کیا تھا۔ یوکرین کی یہ کارروائی روس کے لیے ایک بڑا دھچکہ تھی، لیکن حالیہ حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ روس نے اپنی فضائی صلاحیت کو دوبارہ بحال کر لیا ہے۔ عالمی ردعمل اور مستقبل کی راہ یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب عالمی برادری، خاص طور پر امریکہ اور یورپ، یوکرین کی حمایت میں نئی پابندیاں اور ہتھیاروں کی ترسیل پر غور کر رہے ہیں۔ زیلنسکی نے مغربی اتحادیوں سے فضائی دفاع کے لیے مزید امداد کی اپیل کی ہے، جبکہ ٹرمپ نے روس کو 50 دن کی ڈیڈلائن دی ہے کہ وہ جنگ بندی پر راضی ہو، ورنہ سخت پابندیوں کا سامنا کرے۔ تاہم، روس کے صدر پوتن نے کہا کہ وہ امن کے خواہشمند ہیں، لیکن ان کے اہداف، جن میں یوکرین کے مزید علاقوں پر قبضہ شامل ہے، پورے ہونے چاہئیں۔ نتیجہ: جنگ کا دھواں اور امن کی امید روس کا یہ تازہ حملہ نہ صرف یوکرین بلکہ عالمی امن کی کوششوں کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہے۔ مغربی یوکرین پر حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ روس مغربی امداد کو کمزور کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ زیلنسکی کی پوتن سے ملاقات کی خواہش اور ٹرمپ کی ثالثی کی کوششیں امید کی ایک کرن ہیں، لیکن روس کا موجودہ رویہ اس امید کو دھندلا رہا ہے۔ یہ تنازع اب صرف دو ممالک کا نہیں بلکہ عالمی سیاست اور معیشت کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے۔ "جنگ کا دھواں امن کی راہ کو دھندلا دیتا ہے، لیکن امید کی شمع ابھی بجھی نہیں۔" — ایک یوکرینی شاعر حوالہ جات آجتک دی اکنامک ٹائمز، دی بوسٹن گلوب این پی آر، یورونیوز، پی بی ایس نیوز، ایکس پوسٹ