https://islamictube.in/new_site/public/images/news_images/1907_2025-08-02_islamictube.webp

امریکی دباؤ کی نئی چال: بھارت سے روس کے تیل پر پابندی کا دعویٰ

بیان کی تفصیل: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2 اگست 2025 کو نیوز ایجنسی اے این آئی کے ایک سوال کے جواب میں کہا: ’’میں سمجھتا ہوں کہ بھارت اب روس سے تیل نہیں خریدے گا۔ میں نے یہی سنا ہے، مجھے نہیں معلوم کہ یہ درست ہے یا نہیں۔ یہ ایک اچھا قدم ہے۔ ہم دیکھیں گے کہ کیا ہوتا ہے۔‘‘ یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب بھارت اور امریکہ کے درمیان تجارتی معاہدوں اور ٹیرف کے مسائل پر تناؤ بڑھ رہا ہے۔ ٹرمپ نے اس سے قبل اعلان کیا تھا کہ وہ یکم اگست سے بھارت پر 25 فیصد ٹیرف عائد کریں گے اور جرمانے وصول کریں گے۔ انہوں نے اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ بھارت، اگرچہ امریکہ کا دوست ہے، لیکن تجارت کے معاملے میں کبھی زیادہ تعاون کرنے والا نہیں رہا۔ ان کے مطابق، بھارت دنیا کے سب سے زیادہ ٹیرف عائد کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے، اور اس کے غیر مالیاتی تجارتی رکاوٹیں انتہائی پیچیدہ اور ناقابل قبول ہیں۔ ٹرمپ کا مکمل بیان: ٹرمپ نے چند روز قبل ایک بیان میں کہا تھا: ’’یاد رکھیں، بھارت ہمارا دوست ہے، لیکن پچھلے کچھ سالوں میں ہم نے اس کے ساتھ نسبتاً کم تجارت کی ہے کیونکہ اس کے ٹیرف بہت زیادہ ہیں، دنیا میں سب سے زیادہ، اور کسی بھی ملک کے مقابلے میں اس کے ہاں سب سے سخت اور ناپسندیدہ غیر مالیاتی تجارتی رکاوٹیں ہیں۔ اس کے علاوہ، اس نے ہمیشہ اپنے زیادہ تر فوجی سازوسامان روس سے ہی خریدا ہے، اور چین کے ساتھ مل کر وہ روس کا سب سے بڑا توانائی خریدار ہے، وہ بھی اس وقت جب ہر کوئی چاہتا ہے کہ روس یوکرین میں قتل و غارت روکے۔ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے! اس لیے بھارت کو یکم اگست سے 25 فیصد ٹیرف اور مذکورہ بالا تمام چیزوں کے لیے جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ اس معاملے پر توجہ دینے کے لیے شکریہ۔ مَیگا (Make America Great Again)!‘‘ یہ بیان ٹرمپ کی اس حکمت عملی کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ بھارت کو عالمی سیاست میں روس سے دوری اختیار کرنے اور امریکی مفادات کے مطابق چلنے پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ پس منظر: بھارت-امریکہ تعلقات: بھارت اور امریکہ کے درمیان حالیہ برسوں میں تزویراتی شراکت داری مضبوط ہوئی ہے، لیکن تجارت کے میدان میں تناؤ برقرار ہے۔ بھارت کی جانب سے امریکی مصنوعات جیسے موٹر سائیکلوں، زرعی اشیاء، اور میڈیکل آلات پر زیادہ ٹیرف عائد کرنے پر امریکہ نے کئی بار اعتراض کیا ہے۔ دوسری طرف، بھارت کا موقف ہے کہ وہ اپنی معیشت کے تحفظ کے لیے یہ ٹیرف عائد کرتا ہے، اور وہ امریکہ سے منصفانہ تجارت کی توقع رکھتا ہے۔ روس سے تیل کی خریداری کے حوالے سے ٹرمپ کا بیان ایک غیر مصدقہ دعوے پر مبنی ہے، کیونکہ بھارت نے حالیہ برسوں میں روس سے تیل کی درآمدات میں اضافہ کیا ہے۔ عالمی توانائی ایجنسی کے اعدادوشمار کے مطابق، 2024 میں بھارت روس سے خام تیل کا دوسرا سب سے بڑا خریدار تھا، جو اس کی کل درآمدات کا تقریباً 30 فیصد تھا۔ ٹرمپ کا یہ دعویٰ کہ بھارت نے روس سے تیل خریدنا بند کر دیا ہے، زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا، اور ممکنہ طور پر یہ ان کی سیاسی بیان بازی کا حصہ ہے۔ ایک ایکس پوسٹ میں بھارتی تجزیہ کار نے کہا: ’’ٹرمپ کا بیان سیاسی دباؤ کا ایک حربہ ہے۔ بھارت اپنی توانائی ضروریات کے لیے روس پر انحصار کم نہیں کر سکتا جب تک کہ متبادل ذرائع سستے اور قابل اعتماد نہ ہوں۔‘‘ عالمی تناظر: ٹرمپ کا یہ بیان یوکرین-روس تنازع کے پس منظر میں بھی اہم ہے، کیونکہ مغربی ممالک روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کر کے اسے عالمی تجارت سے الگ تھلگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بھارت نے روس کے ساتھ اپنے تاریخی تعلقات کو برقرار رکھتے ہوئے مغربی پابندیوں میں شامل ہونے سے گریز کیا ہے۔ ٹرمپ کا بیان اس تناظر میں بھارت پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ سماجی اور سیاسی مضمرات: ٹرمپ کے اس بیان نے بھارت میں سیاسی اور سماجی حلقوں میں بحث چھیڑ دی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے اسے بھارت کی خودمختاری پر حملہ قرار دیا ہے، جبکہ حکومتی حلقوں نے خاموشی اختیار کی ہے۔ ایک ایکس صارف نے لکھا: ’’ٹرمپ بھارت کو اپنی پالیسیوں کے تابع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن بھارت کو اپنی خارجہ پالیسی پر قائم رہنا چاہیے۔ روس سے تیل ہماری معیشت کے لیے ضروری ہے۔‘‘ دوسری طرف، امریکی میڈیا نے اس بیان کو ٹرمپ کی ’مَیگا‘ پالیسی کا حصہ قرار دیا، جس کا مقصد امریکی مفادات کو ترجیح دینا ہے۔ ماخذ: اے این آئی: دی ہندو: انڈین ایکسپریس: ٹائمز آف انڈیا: ایکس پوسٹس: