https://islamictube.in/new_site/public/images/news_images/2625_2025-07-23_islamictube.jpg

ایک فون کال اور جگدیپ دھنکھڑ کا استعفیٰ: سیاسی تلخی کی داستان

واقعے کی تفصیل: 21 جولائی 2025 کو جگدیپ دھنکھڑ، جو بھارت کے نائب صدر اور راجیہ سبھا کے چیئرمین تھے، نے اچانک اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ انہوں نے اپنے استعفیٰ کے خط میں صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ صحت کے مسائل اور ڈاکٹری مشورے کی وجہ سے یہ قدم اٹھا رہے ہیں۔ یہ اعلان مانسون اجلاس کے پہلے دن رات 9:25 بجے ایکس پر ان کے سرکاری اکاؤنٹ سے کیا گیا، جس نے نہ صرف حکومتی حلقوں بلکہ اپوزیشن کو بھی حیرت میں ڈال دیا۔ دھنکھڑ نے اپنے خط میں صدر جمہوریہ، وزیراعظم نریندر مودی، وزراء کی کونسل، اور پارلیمنٹ کے اراکین کی جانب سے ملنے والی حمایت اور محبت کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے لکھا: ’’صحت کو ترجیح دینے اور ڈاکٹری مشورے پر عمل کرنے کے لیے، میں آئین کے آرٹیکل 67(اے) کے تحت فوری طور پر بھارت کے نائب صدر کے عہدے سے استعفیٰ دیتا ہوں۔‘‘ لیکن اس استعفیٰ نے کئی سوالات کو جنم دیا۔ کیا یہ واقعی صحت کا معاملہ تھا، یا اس کے پیچھے کوئی سیاسی تلخی چھپی تھی؟ استعفیٰ کی وجوہات: ایک فون کال اور سیاسی تناؤ: نیوز 18 کی ایک رپورٹ کے مطابق، دھنکھڑ کے استعفیٰ کی بنیادی وجہ مانسون اجلاس کے پہلے دن ایک سینئر وزیر کے ساتھ فون پر ہونے والی تلخ گفتگو تھی۔ یہ تنازعہ جسٹس یشونت ورما کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے پیش کردہ مواخذے (امپیچمنٹ) کے نوٹس کو قبول کرنے کے فیصلے سے جڑا تھا، جسے 65 سے زائد اپوزیشن اراکین پارلیمنٹ نے دستخط کر کے پیش کیا تھا۔ اس نوٹس کی وجہ جسٹس ورما کے سرکاری گھر سے بڑی مقدار میں نقدی کی برآمدگی تھی۔ دھنکھڑ نے بطور چیئرمین راجیہ سبھا اپنی آئینی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اس نوٹس کو قبول کیا اور سیکریٹری جنرل کو ضروری اقدامات کی ہدایت دی۔ لیکن ذرائع کے مطابق، یہ فیصلہ مرکزی حکومت کو پسند نہیں آیا، کیونکہ وہ عدلیہ میں بدعنوانی کے خلاف خود ایک بڑی مہم شروع کرنے کی تیاری کر رہی تھی۔ دھنکھڑ کا یہ قدم حکومت کے منصوبوں پر پانی پھیرتا نظر آیا۔ اسی شام 4:30 بجے دھنکھڑ کی جانب سے بلائی گئی بزنس ایڈوائزری کمیٹی (بی اے سی) کی میٹنگ میں بی جے پی کے صدر جے پی نڈا اور پارلیمانی امور کے وزیر کرن رجیجو کی غیر موجودگی نے تناؤ کو مزید بڑھا دیا۔ کانگریس کے سینئر رہنما جے رام رمیش نے دعویٰ کیا کہ دھنکھڑ کو اس غیر موجودگی کی پیشگی اطلاع نہیں دی گئی، جسے انہوں نے توہین سمجھا۔ رمیش نے ایکس پر لکھا: ’’کچھ سنگین واقعات 1 بجے سے 4:30 بجے کے درمیان ہوئے، جن کی وجہ سے نڈا اور رجیجو نے جان بوجھ کر میٹنگ سے غیر حاضر رہنے کا فیصلہ کیا۔‘‘ نڈا نے بعد میں وضاحت دی کہ وہ اور رجیجو دوسرے اہم پارلیمانی کاموں میں مصروف تھے اور انہوں نے نائب صدر کے دفتر کو پیشگی اطلاع دی تھی۔ لیکن یہ وضاحت تناؤ کو کم نہ کر سکی۔ اپوزیشن سے بڑھتی قربت: دھنکھڑ کے استعفیٰ سے پہلے ان کی اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ بڑھتی قربت بھی زیر بحث رہی۔ 15 جولائی کو نائب صدر کے دفتر نے راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر ملیکارجن کھرگے کے ساتھ ان کی ملاقات کا ایک 44 سیکنڈ کا ویڈیو ایکس پر پوسٹ کیا۔ اسی طرح، مانسون اجلاس سے ایک دن پہلے دھنکھڑ نے عام آدمی پارٹی کے رہنما اروند کیجریوال سے ان کے گھر پر ملاقات کی، حالانکہ کیجریوال راجیہ سبھا کے رکن نہیں ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق، ان ملاقاتوں کے دوران دھنکھڑ نے نریندر مودی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کی سرگوشیاں بھی کیں، جو کہ 2024 کے حالات سے بالکل مختلف تھا۔ اس وقت اپوزیشن نے دھنکھڑ کے خلاف مواخذے کا نوٹس پیش کیا تھا، ان پر جانبداری کا الزام لگاتے ہوئے انہیں چیئرمین کے عہدے سے ہٹانے کی دھمکی دی تھی۔ لیکن مارچ 2025 کے بعد دھنکھڑ نے اپوزیشن کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی، خاص طور پر کانگریس کے کھرگے، جے رام رمیش، اور پرمود تیواری کے ساتھ ملاقاتیں کیں تاکہ جانبداری کے الزامات کو رد کیا جا سکے۔ جے رام رمیش نے استعفیٰ کے بعد کہا: ’’دھنکھڑ کا اچانک استعفیٰ حیران کن اور ناقابل فہم ہے۔ میں شام 5 بجے تک ان کے ساتھ تھا اور 7:30 بجے فون پر بات ہوئی۔ انہوں نے صحت یا استعفیٰ کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ اس کے پیچھے کچھ گہری وجوہات ہیں۔‘‘ سیاسی تنازعات اور عدلیہ پر تنقید: دھنکھڑ اپنے عہدے کے دوران عدلیہ پر تنقید کے لیے بھی جانے جاتے تھے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر سخت اعتراض کیا جس میں صدر اور گورنرز کے لیے ریاستی بلز پر دستخط کرنے کی ٹائم لائن مقرر کی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا: ’’ہمارے پاس ججز ہیں جو قانون سازی کریں گے، انتظامی فرائض سرانجام دیں گے، اور ایک سپر پارلیمنٹ کے طور پر کام کریں گے، لیکن ان پر کوئی جوابدہی نہیں کیونکہ قانون ان پر عائد نہیں ہوتا۔‘‘ ان کے اس بیان نے عدلیہ اور پارلیمنٹ کے درمیان تناؤ کو اجاگر کیا، اور کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ اس سے حکومتی حلقوں میں ان کی پوزیشن کمزور ہوئی۔ صحت یا سیاسی دباؤ؟: اگرچہ دھنکھڑ نے اپنے استعفیٰ کی وجہ صحت کو قرار دیا، لیکن ان کے حالیہ پروگرام اس دعوے پر سوالات اٹھاتے ہیں۔ وہ مارچ 2025 میں دل کے عارضے کے باعث آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمز) میں داخل ہوئے تھے، اور جون میں نینی تال میں ایک تقریب کے دوران بے ہوش ہو گئے تھے۔ لیکن 21 جولائی کو وہ راجیہ سبھا کی کارروائی کی صدارت کر رہے تھے اور شام تک اراکین پارلیمنٹ سے ملاقاتیں کر رہے تھے۔ مزید یہ کہ ان کے دفتر نے اسی دن جے پور کے دورے کا اعلان کیا تھا، جو 23 جولائی کو ہونا تھا۔ اپوزیشن رہنما جے رام رمیش اور دیگر نے دعویٰ کیا کہ استعفیٰ کے پیچھے صحت سے زیادہ سیاسی دباؤ تھا۔ انہوں نے وزیراعظم سے اپیل کی کہ وہ دھنکھڑ کو استعفیٰ واپس لینے پر آمادہ کریں۔ سی پی آئی کے رکن پارلیمنٹ پی سندوش کمار نے کہا: ’’یہ غیر متوقع ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اصل وجوہات کیا ہیں۔ شاید وہ کچھ سیاسی پیش رفت سے ناراض تھے۔‘‘ سیاسی اثرات اور مستقبل: دھنکھڑ کے استعفیٰ نے نائب صدر کے عہدے کے لیے نئی دوڑ شروع کر دی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 67 کے تحت، نائب چیئرمین راجیہ سبھا ہری ونش نرائن سنگھ فی الحال روزمرہ کے امور سنبھالیں گے جب تک کہ نیا نائب صدر منتخب نہ ہو جائے۔ کچھ ذرائع نے اشارہ کیا کہ بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار کو نائب صدر بنانے کی حکمت عملی بنائی جا رہی ہے تاکہ بہار انتخابات سے پہلے سیاسی توازن برقرار رکھا جائے۔ دھنکھڑ کے استعفیٰ نے بی جے پی کی قیادت کو بھی چونکا دیا۔ ایک ایکس پوسٹ میں کہا گیا: ’’دھنکھڑ کے استعفیٰ کے 12 گھنٹے بعد بھی نریندر مودی، امیت شاہ، یا جے پی نڈا کی طرف سے کوئی پوسٹ نہیں آئی۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ استعفیٰ غیر معمولی حالات میں ہوا۔‘‘ تاہم، 22 جولائی کو صدر دروپدی مرمو نے دھنکھڑ کا استعفیٰ قبول کر لیا، اور وزیراعظم مودی نے ان کے اچھے صحت کی دعا کی۔ نتیجہ: جگدیپ دھنکھڑ کا استعفیٰ ایک ایسی داستان ہے جو صحت کے دعوؤں سے شروع ہوتی ہے لیکن سیاسی تلخیوں، عدلیہ سے تنازعات، اور اپوزیشن سے بڑھتی قربت کی پرتوں میں لپٹی ہوئی ہے۔ ایک فون کال، ایک اہم میٹنگ میں سینئر وزراء کی غیر موجودگی، اور ایک متنازع فیصلے نے اس کہانی کو ایک غیر متوقع موڑ دیا۔ جیسا کہ کانگریس رہنما جے رام رمیش نے کہا: ’’دھنکھڑ کا استعفیٰ ان کی عزت کو بڑھاتا ہے، لیکن اس سے ان لوگوں کی ناکامی عیاں ہوتی ہے جنہوں نے انہیں اس عہدے پر بٹھایا۔‘‘ یہ واقعہ نہ صرف بھارت کے سیاسی ڈھانچے کی پیچیدگیوں کو ظاہر کرتا ہے بلکہ پارلیمنٹ کی بالادستی، عدلیہ کے کردار، اور سیاسی تعلقات کی نزاکت پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔ اب جب کہ دھنکھڑ راجیہ سبھا کی کرسی چھوڑ چکے ہیں، سیاسی حلقوں کی نظریں نئے نائب صدر کے انتخاب اور اس کے سیاسی اثرات پر مرکوز ہیں۔ ماخذ: دی ہندو: انڈیا ٹوڈے: نیو 18: انڈین ایکسپریس: ٹائمز آف انڈیا: ایکس پوسٹس: