
صدر جمہوریہ اور گورنر کے اختیارات: سپریم کورٹ میں آج اہم سماعت
سماعت کی تفصیل: 22 جولائی 2025 کو سپریم کورٹ کی پانچ ججوں پر مشتمل آئینی بینچ صدر جمہوریہ کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 143 کے تحت بھیجے گئے ایک اہم ریفرنس پر سماعت کرے گی۔ یہ ریفرنس اس سوال سے متعلق ہے کہ کیا ریاستی قانون ساز اسمبلیوں سے منظور شدہ بلوں پر فیصلہ کرنے کے لیے گورنرز اور صدر جمہوریہ پر کوئی قانونی ٹائم لائن نافذ کی جا سکتی ہے۔ اس سوال کا جواب نہ صرف آئینی ڈھانچے کے بنیادی اصولوں کو متاثر کرے گا بلکہ مرکز اور ریاستی حکومتیں کے درمیان تعلقات کے توازن کو بھی واضح کرے گا۔ اس اہم سماعت کی صدارت چیف جسٹس آف انڈیا بھوشن آر گوئی کریں گے، جبکہ ان کے ساتھ بینچ میں جسٹس سوریہ کانت، جسٹس وکران ناتھ، جسٹس پی ایس نرسمہا، اور جسٹس اتل ایس چندرکر شامل ہوں گے۔ یہ بینچ اپنی ساخت کے لحاظ سے غیر معمولی ہے، کیونکہ اس میں سپریم کورٹ کے تین سینئر جج شامل ہیں، اور چار جج موجودہ یا مستقبل کے چیف جسٹس بننے کے ممکنہ امیدوار ہیں۔ جسٹس سوریہ کانت نومبر 2025 میں، جسٹس وکران ناتھ فروری 2027 میں، اور جسٹس پی ایس نرسمہا اکتوبر 2027 میں چیف جسٹس آف انڈیا کا عہدہ سنبھالیں گے۔ پس منظر: اس آئینی بینچ کے قیام کا فیصلہ اس وقت ہوا جب سپریم کورٹ میں یہ بحث چھڑی کہ کیا آرٹیکل 143 کے تحت موصول ہونے والے صدارتی ریفرنس کو براہ راست پانچ ججوں کی آئینی بینچ کو بھیجا جائے یا پہلے تین ججوں کی چھوٹی بینچ ابتدائی سماعت اور نوٹسز جاری کرے۔ اس بحث کو ختم کرنے کے لیے سپریم کورٹ کی رجسٹری نے ماضی میں آرٹیکل 143 کے تحت دائر کیے گئے مقدمات اور عدالت کے قواعد کا جائزہ لیا۔ ان کی رپورٹ کی بنیاد پر چیف جسٹس کو مشورہ دیا گیا کہ اس طرح کے معاملات کی سماعت شروع سے ہی پانچ ججوں کی آئینی بینچ کو کرنی چاہیے، چاہے معاملہ صرف نوٹس جاری کرنے تک ہی محدود کیوں نہ ہو۔ سماعت کا دائرہ کار: آج کی سماعت کے دوران آئینی بینچ اٹارنی جنرل، سولیسیٹر جنرل، اور تمام ریاستی حکومتیں کو نوٹسز جاری کر کے اس اہم آئینی سوال پر غور شروع کرے گی۔ عدالت یہ جائزہ لے گی کہ کیا گورنرز اور صدر جمہوریہ کے لیے ریاستی بلوں پر فیصلہ کرنے کی کوئی آئینی یا قانونی ٹائم لائن مقرر کی جا سکتی ہے، اور اگر ہاں، تو اس کا نفاذ کس طرح ممکن ہے۔ یہ سوال حال ہی میں کئی ریاستوں اور مرکز کے درمیان تنازعات کا باعث بنا ہے، جہاں گورنرز کی جانب سے بلوں پر فیصلہ کرنے میں تاخیر نے سیاسی اور آئینی بحران کو جنم دیا۔ سماجی اور آئینی مضمرات: یہ سماعت نہ صرف آئینی ڈھانچے کے ایک نازک پہلو کو چھوتی ہے بلکہ وفاقی نظام میں مرکز اور ریاستی حکومتیں کے درمیان اختیارات کے توازن کو بھی واضح کرے گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے اثرات طویل المدت ہوں گے، کیونکہ یہ گورنرز اور صدر کے کردار کو نئے سرے سے متعین کر سکتا ہے۔ ایک ایکس پوسٹ میں کہا گیا: ’’سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ وفاقی نظام کی روح کو مضبوط کر سکتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا گورنرز اور صدر پر ٹائم لائن عائد کرنا آئینی اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے؟‘‘ نتیجہ: سپریم کورٹ کی آج کی سماعت ایک ایسی داستان رقم کر رہی ہے جو ہندوستان کے آئینی ڈھانچے کی گہرائیوں کو چھوتی ہے۔ گورنرز اور صدر کے اختیارات پر ٹائم لائن عائد کرنے کا سوال نہ صرف قانونی بلکہ سیاسی طور پر بھی حساس ہے۔ جیسا کہ ایک قانونی ماہر نے کہا: ’’یہ فیصلہ نہ صرف قانون کی بالادستی کو یقینی بنائے گا بلکہ مرکز اور ریاستی حکومتیں کے درمیان تعلقات کے نئے اصول طے کرے گا۔‘‘ یہ سماعت ہندوستان کے وفاقی نظام اور آئینی جوابدہی کی ایک نئی تشریح کی طرف ایک اہم قدم ثابت ہو سکتی ہے۔ عوام اور سیاسی حلقوں کی نظریں اس تاریخی فیصلے پر مرکوز ہیں، جو قانون کی حکمرانی کو مزید مضبوط کرنے کی امید جگاتی ہے۔ ماخذ: دی ہندو: انڈین ایکسپریس: ٹائمز آف انڈیا: ایکس پوسٹس: