
ممبئی ٹرین دھماکوں کا مقدمہ: مظلوموں کی فریاد اور انصاف کی جیت
جب رات کا اندھیرا ممبئی کے ریلوے اسٹیشنوں پر چھایا تھا، اور شہر کی شام اپنی روزمرہ کی چہل پہل میں ڈوبی ہوئی تھی، تب 11 جولائی 2006 کو سات مقامات پر ہونے والے دھماکوں نے نہ صرف شہر کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ سینکڑوں بے گناہ زندگیوں کو بھی موت کی وادی میں دھکیل دیا۔ ان دھماکوں نے 189 انسانوں کی جانیں لیں اور 827 دیگر کو زخمی کیا۔ یہ ایک ایسی رات تھی جس نے ممبئی کے دل پر گہرا زخم چھوڑا۔ لیکن اس سانحے سے بھی زیادہ تکلیف دہ وہ داستان ہے جو اس کے بعد شروع ہوئی—ایک ایسی داستان جس میں بے گناہ مسلمانوں کو جھوٹے الزامات کے جال میں پھنسا کر ان کی زندگیوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ بمبے ہائی کورٹ نے 21 جولائی 2025 کو ایک تاریخی فیصلہ سنایا، جس نے اس مقدمے کے تمام 12 ملزمان کو بری کر دیا۔ یہ وہی ملزمان تھے جنہیں 2015 میں ایک خصوصی ایم سی او سی اے (MCOCA) عدالت نے سزائے موت اور عمر قید کی سزائیں سنائی تھیں۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ استغاثہ اپنا مقدمہ ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا۔ نہ کوئی ٹھوس ثبوت پیش کیا گیا، نہ دھماکوں میں استعمال ہونے والے بارود کی نوعیت واضح کی گئی، اور نہ ہی ملزمان کے مبینہ اعترافی بیانات کو قانونی طور پر معتبر قرار دیا جا سکتا تھا۔ عدالت نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ملزمان کے ساتھ گرفتاری کے بعد تشدد کیا گیا اور ان کے اعترافی بیانات جبر اور دباؤ کے نتیجے میں حاصل کیے گئے۔ شناخت پریڈ کو بھی ناقص قرار دیا گیا، اور گواہوں کے بیانات کو غیر معتبر پایا گیا۔ یہ مقدمہ، جسے 7/11 ٹرین دھماکوں کے نام سے جانا جاتا ہے، نہ صرف ایک سانحے کی داستان ہے بلکہ اس نظام کی بھی عکاسی کرتا ہے جو بارہا بے گناہوں کو اپنی لپیٹ میں لے کر ان کی زندگیوں کو تباہ کر دیتا ہے۔ یہ ملزمان—جن میں سے کئی اپنی جوانی کے عالم میں گرفتار ہوئے—تقریباً دو دہائیوں تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہے۔ ان میں سے ایک، محمد فیصل شیخ، جنہیں اس مقدمے کا مبینہ "ماسٹر مائنڈ" قرار دیا گیا تھا، اور دیگر جن پر بم رکھنے کا الزام تھا، سب نے اپنی بے گناہی کی فریاد کی۔ عدالت نے ان کی آواز سنی اور انصاف کا پلڑا ان کے حق میں جھکایا۔ یہ کہانی صرف ان 12 افراد کی نہیں، بلکہ اس معاشرے کی ہے جو اکثر اوقات تعصب کے عینک سے دیکھتا ہے۔ ان ملزمان کے خلاف مقدمہ بنیادی طور پر ان کے مبینہ اعترافی بیانات پر مبنی تھا، جو ایم سی او سی اے ایکٹ کے تحت ریکارڈ کیے گئے تھے۔ لیکن وکلائے دفاع—یگ چوہدری، نتیا راماکرشنن، اور دیگر نے عدالت میں ثابت کیا کہ یہ بیانات جبر، تشدد، اور دھوکہ دہی کا نتیجہ تھے۔ ایک ملزم، نوید حسین خان، نے ناگپور سینٹرل جیل سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے عدالت کو بتایا کہ وہ اس مقدمے میں ملوث نہیں تھے اور نہ ہی وہ دیگر ملزمان کو گرفتاری سے پہلے جانتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے 19 سال تک بلاوجہ تکلیف سہی، اور جب کہ دھماکوں میں لوگوں کی جانیں گئیں، اس کا یہ مطلب نہیں کہ بے گناہوں کو پھانسی پر لٹکایا جائے۔ یہ فیصلہ ایک عظیم جیت ہے—نہ صرف ان 12 افراد کے لیے بلکہ انصاف کے اس نظام کے لیے جو سچائی کو جھوٹ کے جال سے الگ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وکلائے دفاع نے کہا کہ یہ فیصلہ عوام کے عدلیہ پر اعتماد کو بحال کرے گا۔ لیکن اس جیت کے ساتھ ایک سوال بھی اٹھتا ہے: وہ سال جو ان بے گناہوں نے جیل میں گزارے، وہ کیسے واپس کیے جائیں گے؟ وہ جواں عمری، وہ خواب، وہ خاندان جو ان کی جدائی میں روتے رہے، ان کا کیا بنے گا؟ یہ مقدمہ ایک بار پھر اس تلخ حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ کس طرح ایک خاص طبقے کو نشانہ بنایا جاتا ہے، ان پر جھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں، اور ان کی زندگیوں کو تباہ کر دیا جاتا ہے۔ یہ کہانی صرف ممبئی ٹرین دھماکوں کی نہیں، بلکہ اس معاشرتی رویے کی ہے جو بے گناہوں کو "دہشت گرد" کے لیبل کے نیچے کچل دیتا ہے۔ لیکن جب عدلیہ جیسا ادارہ انصاف کی راہ پر گامزن ہوتا ہے، تو امید کی ایک کرن جاگتی ہے—ایک ایسی کرن جو یہ بتاتی ہے کہ سچائی ہمیشہ اپنا راستہ تلاش کر لیتی ہے۔