*کتاب:مجالس صدیق جلد۱ ص۷۰* *افادات:حضرت مولانا سید صدیق احمد صاحب باندویؒ* *کڑھن اور تکلیف کی بات* فرمایا: میرے لئے سب سے زیادہ کڑھن اور تکلیف کی بات اس وقت ہوتی ہے جب میں دینی مدارس میں کوئی منکر دیکھتا ہوں اور اس پر روک ٹوک بھی نہیں ہوتی تو سخت تکلیف ہوتی ہے، ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے آگ لگادی، مدرسوں میں رہ کر منکر کام ہو کتنے تعجب کی بات ہے، ارے غلطی ہوجاتی ہے، لیکن روک ٹوک کے بعد بھی اثر نہ ہونا یہ ہے افسوس کی بات اور اسی سے دل کڑھ کر رہ جاتا ہے، میرے کوئی روزانہ سو۱۰۰ جوتے لگالے یہ مجھے برداشت ہے لیکن منکر دیکھنا مجھے برداشت نہیں ، کڑھ کڑھ کر رہتا ہوں بہت ضبط کرتا ہوں ، میرے لئے یہی بڑا مجاہدہ ہے اور بڑا سخت مجاہدہ ہے، میں سوچتا ہوں کہ جب دینی مدارس میں ان باتوں کی فکر نہ ہوگی اور منکرات پر نکیر نہ کی جائے گی تو پھر کہاں ہوگی۔ آج میں صبح کے وقت آیا تو دیکھا کہ تیز بلب جل رہا ہے اور لوگ سورہے ہیں ، اتنی تیز روشنی کا بلب جلانے کی کیا ضرورت ہے، اتنا بڑا بلب اگر مدرسہ کے صحن میں لگا دیا جائے تو سارا مدرسہ روشن ہوجائے، اسی قسم کے منکرات دیکھ کر مجھے سخت تکلیف ہوتی ہے۔

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

علم کا بدصورت عاشق :

علم کا بدصورت عاشق :

اصل نام عمرو بن محبوب تھا ، ۱۶۰ ہجری میں پیدا ہوئے اور جاحظ کے لقب سے معروف ہوئے ، عربی میں جاحظ اُسے کہتے ہیں جس کی آنکھوں کے ڈھیلے اُبھرے ہوں ۔ اوائل میں اس لقب کو ناپسند کرتے تھے ، رفتہ رفتہ خاموش ہو گئے ۔ شاید ہی کسی کی شکل کا یوں مذاق اڑایا گیا ہو ، کسی نے انہیں شیطان سے تشبیہ دی ہے اور کسی شاعر نے تو یونہی بھی کہا ہے : اگر خنزیر دوبارہ مسخ کر دیا جائے پھر بھی جاحظ سے کم ہی بدصورت ہوگا ۔ بادشاہ متوکل نے انہیں اپنے بچوں کا استاد مقرر کرنا چاہا ، شکل دیکھی تو انکار کر دیا ۔ حالانکہ معتزلی فکر سے وابستہ تھے ، اس کے باوجود عربی ادب کے امام گردانے جاتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے : جاحظ نے جس کتاب کو پکڑ لیا اسے مکمل پڑھنے تک نیچے نہیں رکھا ۔ اکثر کتابوں کی دکانیں کرائے پر لے کر رات رات بھر پڑھتے رہتے تھے ۔ آخری عمر میں کافی بیماریوں کا شکار ہوئے ، آدھا جسم مفلوج ہو گیا ، یونہی پڑھنے میں مصروف تھے کہ ارد گرد پڑی کتابیں ان پر آگریں اور یوں علم کا بدصورت عاشق کتابوں کے قبرستان میں دفن ہو گیا ۔ (علی سنان)