------ انسان کا یہ بدن مٹی سے بنا ہے اور مٹی ہی میں مل جائے گا، قبر میں جاکر خوبصورت آنکھیں جنہیں سرمہ اور کاجل سے سنوارا جاتا ہے اور یہ بال اور رخسار جنہیں حسین و جمیل بنانے کی تگ و دو کی جاتی ہے اور یہ پیٹ جس کی بھوک مٹانے کے لیے ہر طرح کے جتن کئے جاتے ہیں، یہی آنکھیں پھوٹیں گی اور ان کا پانی چہرے کے رخساروں پر بہہ پڑے گا، بال خود بخود گل کر ٹوٹ جائیں گے، پیٹ بدبودار ہوکر پھٹ پڑے گا، قبر میں کیڑے اس مٹی کے بدن کو اپنی غذا بنالیں گے، اس حالت کو انسان دنیا میں بھولے رہتا ہے مگر یہ حالت پیش آکر رہے گی، اسی جانب متوجہ کرنے کے لیے ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے حضرات صحابہ ؓ سے ارشاد فرمایا : "روزانہ قبر فصیح و بلیغ زبان میں برملا یہ اعلان کرتی ہے کہ اے آدم کی اولاد! تو مجھے کیسے بھول گیا؟ کیا تجھے معلوم نہیں کہ میں تنہائی کا گھر ہوں،میں مسافرت کی جگہ ہوں،میرا مقام وحشت ناک ہے؟ اور میں کیڑوں کا گھر ہوں اور میں تنگ جگہ ہوں سوائے اس شخص کیلئے جس پر اللہ تعالٰی مجھے وسیع فرمادے! پھر آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قبر یا تو جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے ـ یا جنت کی پھلواریوں میں سے ایک پھلواری ہے"ـ لٰہذا اللہ تعالٰی سے شرم و حیا کا تقاضا بیان کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا " کہ اپنی موت اور بدن کی بوسیدگی کو یاد رکھیں! اس سے فکر آخرت پیدا ہوگی اور گناہوں سے بچنے کا داعیہ بھر کر سامنے آئے گا ـ ==================

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

جنرل اور چرواہا __!!

جنرل اور چرواہا __!!

یہ 1917 کی بات ہے عراق کے پہاڑوں میں برطانوی جنرل سٹانلی ماودے کا ایک چرواہے سے سامنا ہوا ۔ جنرل چرواہے کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنے مترجم سے کہا ان سے کہہ دو کہ جنرل تمہیں ایک پاونڈ دے گا بدلے میں تمہیں اپنے کتے کو ذبح کرنا ہوگا۔ کتا چرواہے کے لئے بہت اہم ہوتا ہے یہ اس کی بکریاں چراتا ہے، دور گئے ریوڑ کو واپس لاتا ہے، درندوں کے حملوں سے ریوڑ کی حفاظت کرتا ہے، لیکن پاونڈ کی مالیت تو آدھا ریوڑ سے بھی زیادہ بنتی ہے چرواہے نے یہ سوچا اس کے چہرے پر لالچی مسکراہٹ پھیل گئی، اس نے کتا پکڑ لایا اور جنرل کے قدموں میں ذبح کر دیا۔ جنرل نے چرواہے سے کہا اگر تم اس کی کھال بھی اتار دو تو میں تمہیں ایک اور پاونڈ دینے کو تیار ہوں، چرواہے نے خوشی خوشی کتے کی کھال بھی اتار دی، جنرل نے کہا میں مزید ایک اور پاونڈ دینے کے لئے تیار ہوں اگر تم اس کی بوٹیاں بھی بنا دو چرواہے نے فوری یہ آفر بھی قبول کرلی جنرل چرواہے کو تین پاونڈ دے کر چلتا بنا۔ جنرل چند قدم آگے گئے تھے کہ اسے پیچھے سے چرواہے کی آواز سنائی دی وہ پیچھے پیچھے آ رہا تھا اور کہہ رہا تھا جنرل اگر میں کتے کا گوشت کھا لوں آپ مجھے ایک اور پاونڈ دیں گے؟ جنرل نے انکار میں سر ہلایا کہ میں صرف تمہاری نفسیات اور اوقات دیکھنا چاہتا تھا، تم نے صرف تین پاونڈ کے لئے اپنے محافظ اور دوست کو ذبح کر دیا اس کی کھال اتار دی، اس کے ٹکڑے کیا اور چوتھے پاونڈ کے لئے اسے کھانے کے لئے بھی تیار ہو، اور یہی چیز مجھے یہاں چاہئے۔ پھر جنرل اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوئے کہ اس قوم کے لوگوں کی سوچیں یہ ہیں لہذا تمہیں ان سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آج یہی حال مسلم ملکوں اور معاشروں کا ہے، اپنی چھوٹی سی مصلحت اور ضرورت کے لئے اپنی سب سے قیمتی اور اہم چیز کا سودا کر دیتے ہیں۔ اور یہ وہ ہتھیار ہے جسے ہر استعمار، ہر قابض، ہر شاطر دشمن ہمارے خلاف استعمال کرتا رہا ہے، اسی کے ذریعے اس نے حکومت کی ہے اور اسی کے ذریعے ملکوں کو لوٹا ہے۔ آج ہمارے درمیان ہمارے ملکوں میں کتنے ہی ایسے 'چرواہے' ہیں جو نہ صرف کتے کا گوشت کھانے کے لئے تیار ہیں بلکہ اپنے ہم وطن بھائیوں کا گوشت کھا رہے ہیں اور چند ٹکوں کے عوض اپنا وطن بیچ رہے ہیں۔ ڈاکٹر علی الوردی کی عربی کتاب " لمحات اجتماعية من تاريخ العراق " سے ماخوذ