ایک ہوائی جہاز کا صفائی کرنے والا کاک پٹ کی صفائی کر رہا تھا کہ اس نے پائلٹ کی سیٹ پر ایک کتاب دیکھی جس کا عنوان تھا: "ابتدائیوں کے لیے پرواز کا طریقہ (صفحہ 1)" اس نے کتاب کا پہلا صفحہ کھولا، جہاں لکھا تھا: "انجن چلانے کے لیے سرخ بٹن دبائیں" اس نے ہدایات پر عمل کیا اور طیارے کا انجن چل گیا۔ یہ دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا۔ پھر وہ اگلے صفحے پر گیا، جہاں لکھا تھا: "طیارے کو حرکت میں لانے کے لیے نیلا بٹن دبائیں" اس نے بٹن دبایا اور طیارہ حیرت انگیز رفتار سے حرکت کرنے لگا۔ اب وہ طیارہ اڑانے کا خواہشمند تھا، اس لیے اس نے تیسرا صفحہ کھولا، جہاں لکھا تھا: "طیارے کو اڑانے کے لیے سبز بٹن دبائیں" اس نے بٹن دبایا اور طیارہ فضا میں بلند ہو گیا۔ وہ بہت پرجوش تھا! مگر مشکل تب شروع ہوئی... 20 منٹ کی پرواز کے بعد، اس نے لینڈنگ کرنے کا سوچا۔ چنانچہ اس نے چوتھا صفحہ کھولا تاکہ ہدایات معلوم کرے۔ لیکن چوتھے صفحے پر لکھا تھا: "لینڈنگ کا طریقہ جاننے کے لیے کتاب 2 خریدیں۔" سبق اور نصیحت: کسی بھی کام کو مکمل معلومات کے بغیر نہ کریں۔ ادھورا علم خطرناک نہیں بلکہ تباہ کن ہوتا ہے!

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

عیسائیت کی ثقافتی یلغار!!

عیسائیت کی ثقافتی یلغار!!

جب تک عیسائی مذہب سیاست سے ہم آہنگ نہیں تھا، اُس وقت تک دُنیا کی ہر قوم کا اپنا ایک الگ لباس ہوتا تھا۔ اب بھی جہاں جہاں عیسائی مذہب کسی قوم کی سیاست پر اثر انداز نہیں ہوا وہاں اب بھی اس قوم کا اپنا ایک مخصوص قومی لباس ہے۔ جن ملکوں میں عیسائیت سیاست سے ہم آہنگ ہوکر پہنچی وہاں کا قومی لباس محمود غزنوی کے چہیتے غُلام ایاز کے "لباسِ غُلامی" کی طرح پُرانے صندوق میں چُھپا دیا گیا ہے، جو کبھی کبھار عید کے تہوار پر محض پُرانی یاد تازہ کرنے کے لیے نکالا جاتا ہے۔ چنانچہ عیسائیت کا لباس کوٹ پتلون اور نکٹائی اب ایک بین الاقوامی لباس بن گیا ہے جسے اب عیسائیوں کے علاوہ ہر مذہب، ہر مُلک اور ہر قوم کے باشندے پہنتے ہیں۔ جہاں تک کوٹ پتلون والے لباس کا تعلق ہے اُسے دیکھ کر کسی شخص کی قومیت کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ہاں البتہ چہرے کے رنگ یا بولی جانے والی زبان سے پتہ لگایا جاسکتا ہے کہ فلاں شخص امریکی ہے یا فلاں شخص پاکستانی۔ ( معروف ادیب و صحافی ابراہیم جلیس کی کتاب "اُوپر شیروانی اندر پریشانی" سے اقتباس )