حضرت جعفر بن برقان کہتے ہیں کہ ہمیں یہ بات پہنچی کہ حضرت سلمان فارسیؓ فرمایا کرتے تھے مجھے تین آدمیوں پر ہنسی آتی ہے اور تین چیزوں سے رونا آتا ہے ایک تو اس آدمی پر ہنسی آتی ہے جو دنیا کی امیدیں لگا رہا ہے حالانکہ موت اسے تلاش کر رہی ہے دوسرے اس آدمی پر جو غفلت میں پڑا ہوا ہے اور اس سے غفلت نہیں برتی جا رہی یعنی فرشتے اس کا ہر برا عمل لکھ رہے ہیں اور اسے ہر عمل کا بدلہ ملے گا تیسرے منہ بھر کر ہنسنے والے پر جسے معلوم نہیں ہے کہ اس نے اپنے رب کو خوش کر رکھا ہے یا ناراض - اور مجھے تین چیزوں سے رونا آتا ہے پہلی چیز محبوب دوستوں یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی جماعت کی جدائی دوسری موت کی سختی کے وقت آخرت کے نظر آنے والے مناظر کی ہولناکی تیسری اللہ رب العالمین کے سامنے کھڑا ہونا جب کہ مجھے یہ معلوم نہیں ہوگا کہ میں جہنم میں جاؤں گا یا جنت میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس دنیا میں مومن کی مثال اس بیماری جیسی ہے جس کا طبیب اور معالج اس کے ساتھ ہوں جو اس کی بیماری اور اس کے علاج دونوں کو جانتا ہو جب اس کا دل کسی ایسی چیز کو چاہتا ہے جس میں اس کی صحت کا نقصان ہو تو وہ معالج اسے اس سے منع کر دیتا ہے اور کہہ دیتا ہے اس کے قریب بھی نہ جاؤ کیوں کہ اگر تم نے اسے کھایا تو یہ تمہیں ہلاک کر دے گی اسی طرح وہ معالج اسے نقصان دہ چیزوں سے روکتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ بالکل تندرست ہوجاتا ہے اور اس کی بیماری ختم ہو جاتی ہے اسی طرح مومن کا دل بہت سی ایسی دنیاوی چیزوں کو چاہتا رہتا ہے جو دوسروں کو اس سے زیادہ دی گئی ہیں لیکن اللہ تعالی موت تک اسے ان سے منع کرتے رہتے ہیں اور ان چیزوں کو اس سے دور کرتے رہتے ہیں اور مرنے کے بعد اسے جنت میں داخل کر دیتے ہیں۔(حیاۃ الصحابہ)

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

سچ کہو اور باقی رہو

سچ کہو اور باقی رہو

ایک بار ایک بادشاہ جوانوں کے لنگر خانے گیا ، صفائی ستھرائی چیک کی درست تھی، پھر اس نے پوچھا کہ جوانوں کے لیے کیا پکایا ہے ؟جواب ملا بتاؤں یعنی بینگن ۔بادشاہ سخت ناراض ہوا کہ جوانوں کے لیے اتنا گھٹیا کھانا کیوں پکایا گیا ہے ؟اس کے مشیر نے بینگن کی بُرائی میں زمین آسمان ایک کر دیے ، بہر کیف لنگر کمانڈر نے معذرت کی اور آئندہ سے بینگن نہ پکانے اور اچھا کھانا پکانے کا وعدہ کیا تو بادشاہ لنگر خانے سے رخصت ہو گیا ۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد بادشاہ کو دوبارہ سے جوانوں کے لنگر خانے جانے کا اتفاق ہوا۔. سوئے اتفاق اس روز بھی بینگن پکائے گئے تھے۔ بادشاہ نے بینگن کی تعریف کی . وہ ہی مشیر ساتھ تھا ، اس نے بینگن کی تعریف میں ممکنہ سے بھی آگے بینگن کے فوائد بیان کر دیے ۔گویا بینگن کے توڑ کی کوئی سبزی اور پکوان باقی نہ رہے ۔ لنگر کمانڈر خوش ہوا اور آگے سے بینگن کے برابر اور متواتر پکائے جانے کا وعدہ کیا ۔بادشاہ اس مشیر کی جانب مڑا اور کہنے لگا کہ اس دن میں نے بینگن کی بُرائی کی تو تم نے بینگن کی بُرائی میں کوئی کسر نہ چھوڑی ، آج جب کہ میں نے تعریف کی ہے تو تم نے بینگن کی تعریف میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ، کیوں ؟اس نے جواباً کہا حضور میں آپ کا غلام ہوں بینگن کا نہیں ۔یہ سن کر بادشاہ نے کہا تم جیسے جی حضوریے حق اور سچ کو سامنے نہیں آنے دیتے ، جس کے سبب صاحب اقتدار متکبر ہو جاتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں ان سے انصاف نہیں ہو پاتا۔ انصاف کا قتل ہی قوموں کے زوال کا سبب بنتا ہے ۔ پہلے تو وہ جی حضوریہ چپ رہا پھر کہنے لگا حضور جان کی امان پاؤں تو ایک عرض کروں ۔بادشاہ نے کہا : کہو کیا کہنا چاہتے ہو ؟حضور سچ اور حق کی کہنے والے ہمیشہ جان سے گئے ہیں۔ بادشاہ نے کہا! یاد رکھو سچ اور حق جان سے بڑھ کر قیمتی ہیں۔ مرنا تو ایک روز ہے ہی ، سچ کہتے مرو گے تو باقی رہو گے، ہاں جھوٹ کہنے یا اس پر درست کی مہر ثبت کرنے کی صورت میں بھی زندہ رہو گے لیکن لعنت اور پھٹکار اس زندگی کا مقدر بنی رہے گی ۔