اس تصویر کی دونوں حصوں میں شادی کے عمل اور معاشرتی توقعات کو بہت منفرد اور معنی خیز انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ پہلی تصویر میں ایک دلہن دکھائی گئی ہے، جو شادی کے سامان سے لدے ہوئے ٹھیلے کو کھینچ رہی ہے، جبکہ دلہا اونچے طرز کا لباس پہنے اس پر بیٹھا ہوا ہے۔ یہ منظر ہمارے معاشرے میں جہیز کی رسم اور شادی کی غیر ضروری توقعات کی عکاسی کرتا ہے۔ دلہن کو جہیز کی بھاری ذمہ داری دی جاتی ہے، اور یہ دکھایا گیا ہے کہ وہ اپنے کندھوں پر یہ بوجھ اٹھاتی ہے، گویا یہ سماجی رسم اس پر مسلط کی گئی ہے۔ دوسری تصویر میں، ایک دلہن نے دلہے کے ہاتھوں میں زنجیریں باندھ رکھی ہیں، اور دلہا ایک تختی پہنے ہوئے ہے جس پر لکھا ہے کہ اس کی تنخواہ 1 لاکھ 50 ہزار ہے۔ دلہن کی تختی پر لکھا ہے "پرفیکٹ دولہا"۔ یہ منظر معاشرتی توقعات اور شادی کے انتخاب میں مالی حالت کو اہمیت دینے کا طنز کرتا ہے۔ یہاں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ایک "کامل دولہا" وہی ہوتا ہے جس کی تنخواہ زیادہ ہو، جیسے شادی کو ایک مالی سودے کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔ ان دونوں تصویروں کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ ہمارے معاشرتی رویے اور روایات شادی جیسے مقدس بندھن کو بوجھ بنا دیتے ہیں، چاہے وہ جہیز کی صورت میں ہو یا دولہے کی مالی حیثیت کی بنیاد پر۔ یہ مناظر اس تلخ حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ شادی کے مقدس رشتے کو سادگی اور محبت کے بجائے دولت اور سماجی توقعات سے مشروط کر دیا گیا ہے۔

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

عیسائیت کی ثقافتی یلغار!!

عیسائیت کی ثقافتی یلغار!!

جب تک عیسائی مذہب سیاست سے ہم آہنگ نہیں تھا، اُس وقت تک دُنیا کی ہر قوم کا اپنا ایک الگ لباس ہوتا تھا۔ اب بھی جہاں جہاں عیسائی مذہب کسی قوم کی سیاست پر اثر انداز نہیں ہوا وہاں اب بھی اس قوم کا اپنا ایک مخصوص قومی لباس ہے۔ جن ملکوں میں عیسائیت سیاست سے ہم آہنگ ہوکر پہنچی وہاں کا قومی لباس محمود غزنوی کے چہیتے غُلام ایاز کے "لباسِ غُلامی" کی طرح پُرانے صندوق میں چُھپا دیا گیا ہے، جو کبھی کبھار عید کے تہوار پر محض پُرانی یاد تازہ کرنے کے لیے نکالا جاتا ہے۔ چنانچہ عیسائیت کا لباس کوٹ پتلون اور نکٹائی اب ایک بین الاقوامی لباس بن گیا ہے جسے اب عیسائیوں کے علاوہ ہر مذہب، ہر مُلک اور ہر قوم کے باشندے پہنتے ہیں۔ جہاں تک کوٹ پتلون والے لباس کا تعلق ہے اُسے دیکھ کر کسی شخص کی قومیت کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ہاں البتہ چہرے کے رنگ یا بولی جانے والی زبان سے پتہ لگایا جاسکتا ہے کہ فلاں شخص امریکی ہے یا فلاں شخص پاکستانی۔ ( معروف ادیب و صحافی ابراہیم جلیس کی کتاب "اُوپر شیروانی اندر پریشانی" سے اقتباس )