اس تصویر کی دونوں حصوں میں شادی کے عمل اور معاشرتی توقعات کو بہت منفرد اور معنی خیز انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ پہلی تصویر میں ایک دلہن دکھائی گئی ہے، جو شادی کے سامان سے لدے ہوئے ٹھیلے کو کھینچ رہی ہے، جبکہ دلہا اونچے طرز کا لباس پہنے اس پر بیٹھا ہوا ہے۔ یہ منظر ہمارے معاشرے میں جہیز کی رسم اور شادی کی غیر ضروری توقعات کی عکاسی کرتا ہے۔ دلہن کو جہیز کی بھاری ذمہ داری دی جاتی ہے، اور یہ دکھایا گیا ہے کہ وہ اپنے کندھوں پر یہ بوجھ اٹھاتی ہے، گویا یہ سماجی رسم اس پر مسلط کی گئی ہے۔ دوسری تصویر میں، ایک دلہن نے دلہے کے ہاتھوں میں زنجیریں باندھ رکھی ہیں، اور دلہا ایک تختی پہنے ہوئے ہے جس پر لکھا ہے کہ اس کی تنخواہ 1 لاکھ 50 ہزار ہے۔ دلہن کی تختی پر لکھا ہے "پرفیکٹ دولہا"۔ یہ منظر معاشرتی توقعات اور شادی کے انتخاب میں مالی حالت کو اہمیت دینے کا طنز کرتا ہے۔ یہاں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ایک "کامل دولہا" وہی ہوتا ہے جس کی تنخواہ زیادہ ہو، جیسے شادی کو ایک مالی سودے کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔ ان دونوں تصویروں کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ ہمارے معاشرتی رویے اور روایات شادی جیسے مقدس بندھن کو بوجھ بنا دیتے ہیں، چاہے وہ جہیز کی صورت میں ہو یا دولہے کی مالی حیثیت کی بنیاد پر۔ یہ مناظر اس تلخ حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ شادی کے مقدس رشتے کو سادگی اور محبت کے بجائے دولت اور سماجی توقعات سے مشروط کر دیا گیا ہے۔

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

پیدل چلتے ہوئے مطالعہ

پیدل چلتے ہوئے مطالعہ

اسلاف کے ہاں شوقِ مطالعہ اور اہمیتِ وقت کا یہ عالم تھا کہ پیدل چلتے ہوئے بھی کتاب کا مطالعہ جاری رہتا۔ ابن الآبنوسی کہتے ہیں کہ علامہ خطیب بغدادیؒ پیدل چل رہے ہوتے تو ہاتھ میں کتاب لیے اس کا مطالعہ کر رہے ہوتے۔ (سیر اعلام النبلاء، ١٨: ٢٨١) نحو کے ایک بے بدل عالم علامہ احمد بن یحیٰ جو ثعلب کے نام سے مشہور ہیں، ان کو تو یہ شوق بہت ہی مہنگا پڑا۔ یہ مطالعے کے رسیا تھے اور ثقلِ سماعت کا شکار تھے، اس لیے اونچا سنائی دیتا تھا۔ ایک مرتبہ جمعے کے دن عصر پڑھ کر جامع مسجد سے نکلے تو حسبِ معمول کتاب کھولی اور پیدل چلتے ہوئے پڑھنے میں مگن ہو گئے۔ راستے میں گھوڑے نے دولتی جھاڑ دی؛ پاس ہی ایک گہرا کھڈا تھا، یہ اس میں جا گرے۔ ان کو دماغ پہ چوٹ آئی؛ اسی حال میں گھر لے جایا گیا مگر اگلے روز یہ عاشق کتب انتقال کر گئے! (ابن خلکان، وفیات الاعیان، ١: ١٠٤) [انتخاب و ترجمانی: طاہر اسلام عسکری]