*حسنِ اخلاق کی قیمت* 🥹 بغداد میں ایک شخص ابو حمزہ رہتے تھے جو "سُکری" کے لقب سے مشہور تھے ... انہیں "سُکری" کہنے کی وجہ کیا تھی؟ ... عربی میں "سُکر" چینی کو کہتے ہیں ... دراصل ان کے اخلاق اتنے میٹھے تھے کہ ان کی ہر بات چینی کی طرح مزے دار لگتی تھی ... لہٰذا ان کے اخلاق کی بدولت لوگوں نے انہیں "سُکری" مشہور کر دیا تھا ... ان کے بارے میں آتا ہے کہ وہ ایک بار سخت مقروض ہو گئے ... چنانچہ اپنا عظیم الشان گھر بیچ کر اپنا قرض ادا کرنا چاہا ... جب محلے والوں کو علم ہوا تو انہوں نے وجہ پوچھی ... کہنے لگے: مجھ پر مشکل وقت آگیا ہے اور معاشی طور پر کمزور ہو گیا ہوں ... لوگوں نے مشورہ کیا اور اس بات پر متفق ہوئے کہ اگر ہم سب محلے والوں نے مل کر ان کا قرض ادا نہ کیا اور "سُکری" ہم میں سے چلے گئے ... تو ہمیں ان جیسا کبھی نہیں ملے گا ... تمام لوگوں نے مل کر قرض کی رقم ادا کی ... اور "سُکری" کو اپنے محلے سے نہ جانے دیا ... اور نہ ہی ان کو مکان بیچنے دیا ... (کتاب البطن، صفحہ نمبر ۵۵)

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

سمجھداری يا چالاکی __؟؟

سمجھداری يا چالاکی __؟؟

ایک شاطر اور چالاک مالدار شخص کسی گاؤں میں ایک کسان کے پاس پہنچا اور اُسے پارٹنر شپ کی آفر کی، کہ رقم میری ہوگی اور محنت تمہاری! لیکن جب فصل تیار ہو جائے گی تو جو حصّہ زمین کے اندر ہوتا ہے وہ تمہارا جبکہ اوپر والا سارا میرا ہوگا (یہ چالاکی اس نے اس لئے کی کہ زمین میں جڑیں ہوتی ہیں جو اس بے وقوف کسان کے حصے میں آئیں گی اور اصل قیمت تو اوپر والے حصے کی ہوتی ہے وہ میں لے اُڑوں گا) بہرحال کسان نے کچھ دیر سوچا اور آفر قبول کرلی۔ جب فصل تیار ہوگئی تو چالاک مالدار اپنا حصہ لینے پہنچا تو یہ دیکھ کر اپنا سر پکڑ لیا کہ کسان نے پیاز کی فصل بوئی تھی چنانچہ معاہدے کے مطابق پیاز کسان کے حصے میں آئی اور اوپر کے بے قیمت پتے مالدار کو ملے۔ چالاک مالدار نے سبق سیکھ کر باز آنے کے بجائے ایک اور داؤ کھیلنے کا سوچا اور کسان کو ایک مرتبہ پھر پارٹنر شپ کی آفر کی لیکن اس مرتبہ شرط یہ رکھی کہ فصل کا جو حصہ زمین کے اندر ہوگا وہ میرا اور اوپر والا تمہارا! کسان نے یہ شرط قبول کرلی۔ جب فصل تیار ہونے پر چالاک مالدار اپنا حصہ لینے پہنچا تو دیکھ کر ہکّا بَکّا رہ گیا کہ کسان نے گَنّے اُگائے تھے جس کی بےکار جڑیں اس کے حصے میں آئیں اور قیمتی گَنّے کسان کو ملے، کسان کی سمجھداری کے ہاتھوں دو مرتبہ اپنی چالاکی کا نقصان اُٹھانے کے بعد بھی مالدار نے ہار نہیں مانی اور سارا حساب چُکانے کے لئے کسان کو اگلی فصل کے لئے رقم دیتے ہوئے کہا: میں دو مرتبہ نقصان میں رہا ہوں اس لئے اس مرتبہ فصل کا نچلا اور اُوپر والا حصہ میرا ہوگا درمیان میں جو کچھ ہوگا وہ تمہارا ہوگا۔ اب کی بار فصل تیار ہوئی تو چالاک مالدار خوشی خوشی کھیتوں میں پہنچا کہ اس مرتبہ فائدہ صرف میرا ہوگا، لیکن کھیتوں میں پہنچ کر اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا کہ کسان نے اس مرتبہ مکئی (چھلیاں) اُگائی تھی جس کا نچلا اور سب سے اوپر والا حصہ بے قیمت ہوتا ہے اور اصل قیمت درمیان میں موجود چَھلی کی ہوتی ہے۔ یوں کسان کی سمجھداری نے مالدار کی چالاکی کو شکست دے دی۔ پیارے بھائیو! عقل اللہ پاک کی دی ہوئی بہت بڑی نعمت ہے، اب یہ انسان پر موقوف ہے کہ وہ عقل کا استعمال مثبت کرتا ہے یا منفی! سمجھداری میں کرتا ہے یا چالاکی میں! 🖋🌹💠منقول از : سبــق آمـوز کہــانیــاں 💠🌹🖋