*ایک ادھوری فتح، ایک کڑا امتحان* _از: مفتی محمد سلمان مظاہری_ آج جب عدالتِ عظمیٰ کا ہتھوڑا گرا، تو اس کی گونج ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں کے دلوں میں سنی گئی۔ یہ ایک ایسی گونج تھی جس میں امید کی ہلکی سی کرن بھی تھی اور خطرے کا گہرا اندیشہ بھی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب سانسیں رکی ہوئی تھیں، جب نگاہیں انصاف کے ترازو پر جمی تھیں، اور جب سوال صرف زمین کے چند ٹکڑوں کا نہیں، بلکہ ہماری میراث، ہماری تاریخ اور ہماری آنے والی نسلوں کی امانت کا تھا۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ سامنے آیا تو کیفیت کچھ یوں ہوئی کہ جیسے طوفان میں گھری کشتی کو وقتی طور پر سانس لینے کا موقع مل گیا ہو، لیکن سمندر کی موجیں ابھی بھی بپھری ہوئی ہیں۔ عدالت نے ہماری فریاد کو یکسر مسترد نہیں کیا، اس نے اس متنازعہ قانون کے کچھ زہریلے دانتوں کو وقتی طور پر نکال دیا ہے۔ اس نے یہ مانا کہ وقف کا انتظام مسلمانوں کے ہاتھ میں ہی رہنا چاہیے اور وقف قائم کرنے کے لیے کسی سے اس کے ایمان کا ثبوت مانگنا زیادتی ہے۔ یہ ایک چھوٹی سی راحت ہے، ایک مرہم کا پھایا ہے جو گہرے زخم پر رکھا گیا ہے۔ *لیکن کیا ہم اس ادھوری فتح کا جشن منا سکتے ہیں؟* شاید نہیں، کیونکہ زخم ابھی بھی گہرا ہے اور خطرے کی تلوار ہمارے سروں پر لٹک رہی ہے۔ قانون کی روح، جو سرکاری مداخلت اور اختیارات کی کمی کی بات کرتی ہے، وہ اب بھی زندہ ہے۔ یہ فیصلہ ایک مکمل جیت نہیں، بلکہ ایک مہلت ہے۔ اللہ کی طرف سے دی گئی ایک مہلت کہ ہم سنبھل جائیں، خود کو پہچانیں اور اپنی صفوں کو درست کریں۔ *آج ہمیں ٹھنڈے دل سے یہ سوچنا ہوگا کہ ہم اس مقام تک پہنچے کیسے؟* یہ قانون آسمان سے نہیں اترا۔ یہ ہماری اپنی غفلتوں اور کوتاہیوں کی زمین سے اگا ہے۔ ہم نے اپنے اسلاف کی چھوڑی ہوئی اس عظیم امانت کو کیا سمجھا؟ ہم نے اسے ذاتی جاگیروں اور سیاسی اکھاڑوں میں بدل دیا۔ جب ہم خود ہی اپنے ورثے کے محافظ نہ بن سکے تو ہم دوسروں سے کیا گلہ کریں؟ ہماری اندرونی کمزوریوں نے ہی بیرونی طاقتوں کو یہ جرات دی کہ وہ ہمارے معاملات میں دخل اندازی کریں۔ یہ قانون ایک آئینہ ہے جس میں ہمیں اپنا بے عمل چہرہ بھی نظر آنا چاہیے۔ *اب سوال یہ ہے کہ آگے کیا ہوگا؟* کیا ہم اس مہلت کو بھی غفلت کی نیند میں گزار دیں گے؟ یا اس آزمائش کی گھڑی کو ایک موقع میں بدلیں گے؟ اب راستہ صرف ایک ہے۔ راستہ ہے اتحاد کا، خود احتسابی کا اور اصلاح کا۔ اب وقت ہے کہ ہم مسلکی اور ذاتی اناؤں کے بتوں کو توڑ کر ایک ملت بن جائیں اور اس قانونی جنگ کو اپنی بقا کی جنگ سمجھ کر لڑیں۔ ہمیں اپنے وقف کے نظام کو اتنا شفاف اور مضبوط بنانا ہوگا کہ کسی کو انگلی اٹھانے کی ہمت نہ ہو۔ آج کا دن تاریخ ہم سے سوال کر رہی ہے۔ وہ پوچھ رہی ہے کہ کیا تم اپنے بزرگوں کی امانت کی حفاظت کر پاؤ گے؟ کیا تم آنے والی نسلوں کو یہ عظیم ورثہ منتقل کر سکو گے؟ اس کا جواب ہمارے لفظوں میں نہیں، ہمارے عمل میں ہوگا۔ یہ فیصلہ ایک دوراہے کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایک راستہ مزید غفلت اور تباہی کی طرف جاتا ہے، اور دوسرا راستہ جدوجہد، اتحاد اور بالاخر کامیابی کی طرف۔ انتخاب ہمارے ہاتھ میں ہے۔ اللہ تعالٰی ہی خیر کا معاملہ فرماۓ https://whatsapp.com/channel/0029Vb6RDPC0AgW4E6MyLv35

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

چشمِ خطا پوش :

چشمِ خطا پوش  :

ایک شخص نے فضل بن ربیعؒ کے نام کا جعلی خط تحریر کیا، جس میں اپنے لئے ایک ہزار دینار کا حکم جاری کر کے دستخط کئے گئے تھے، وہ شخص خط لے کر فضل بن ربیع کے خزانچی کے پاس پہنچا، اس نے خط پڑھ ڈالا مگر اسے کوئی شبہ نہ گزرا، وہ ایک ہزار دینار اس کے سپرد کرنے ہی لگا تھا کہ اس دوران فضل بن ربیعؒ کسی کام سے خود وہاں آ پہنچا، خزانچی نے اس شخص کا تذکرہ اس کے سامنے کیا اور خط بھی دکھایا، فضل بن ربیعؒ نے خط دیکھنے کے بعد ایک نظر اس شخص کے چہرے پر ڈالی تو اس کا چہرہ زرد پڑ گیا اور خوف سے تھر تھر کانپ رہا تھا، فضل بن ربیعؒ سر جھکا کر کچھ دیر سوچنے کے بعد خزانچی سے مخاطب ہوا " تمہیں معلوم ہے میں اس وقت تمہارے پاس کیوں آیا ہوں؟" خزانچی نے نفی میں گردن ہلادی، فضل بن ربیعؒ نے کہا،" میں تمہیں صرف یہ تاکید کرنے آیا ہوں کہ اس شخص کو رقم فوراً ادا کر کے اس کی ضرورت پوری کرو" خزانچی نے فوراً ہزار دینار تھیلی میں ڈال کر اس شخص کے سپرد کردیئے، وہ شخص ہکا بکا رہ گیا، گھبراہٹ کے عالم میں کبھی وہ فضل بن ربیعؒ کے چہرے کو دیکھتا اور کبھی خزانچی کے، فضل بن ربیعؒ قریب ہوکر اس سے مخاطب ہوا "گھبراؤ نہیں اور راضی خوشی گھر کا رخ کرو " اس شخص نے فرط جذبات سے فضل بن ربیعؒ کے ہاتھ کا بوسہ لیا اور کہا، "آپ نے میری پردہ پوشی کی اور رسوا نہ کیا، روز قیامت اللہ آپ کی پردہ پوشی فرمائے اور رسوائی سے بچائے" یہ کہہ کر اس نے دینار لئے اور نکل آیا ـ ( المستطرف ص:۲۰۶) ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ کتاب : کتابوں کی درس گاہ میں (صفحہ نمبر ۹۴ ) مصنف : ابن الحسن عباسی ؒ