*مزاحیہ* ایک ہندی، عرب گئے، وہاں ایک پارک میں بیٹھے تھے، جس کے ارد گرد عالی شان مکان تھے، اسی دوران دیکھا کہ ایک عربی نے سگریٹ پی، پھر پی، تھوڑی دیر بعد پھر پی، ہندی نے یہ حال دیکھ کر اس عربی سے پوچھا کہ آپ روزانہ کتنے روپے کی سگریٹ پیتے ہیں؟ اس نے بتایا اتنے روپیے کی، ہندی نے حساب لگایا کہ ایک دن میں اتنے کی؛ تو ہفتے میں اتنے کی؛ مہینے میں اتنے کی؛ سال میں اتنے کی؛ کثیر رقم بن گئی، پھر عربی سے کہا کہ اگر آپ سگریٹ نہ پیتے تو کتنے روپے بچتے، جس سے یہ مکان بھی آپ کا ہوتا، یہ مکان بھی آپ کا ہوتا، عربی نے اس سے پوچھا کہ آپ سگریٹ پیتے ہیں؟ ہندی نے کہا نہیں، عربی نے کہا: پھر تو یہ مکان بھی آپ کا ہوگا، یہ مکان بھی آپ کا ہوگا؟ پھر کہا کہ یہ مکان بھی میرا ہے، یہ بھی میرا ہے، یہ سب مکانات، اتنی سگریٹ نوشی کے باوجود میرے ہیں. ملفوظات فقیہ الامت قسط رابع ص٥٠ *سبق* کسی کو کسی بات پر تنبیہ کرتے ہوئے ایسے گرُ کی بات بتانی چاہیے جسے عقل قبول بھی کرے، یہاں چونکہ سگریٹ کے پیسے بچا کر اتنے بڑے بڑے مکانات بنانا عقل کے خلاف تھا؛ اس واسطے عربی کی عقل نے اسے قبول نہیں کیا، بجائے اس کے یوں کہتا کہ اتنی سگریٹ نوشی سے آپ کی طبیعت کا کیا حال ہوگا، آج نہیں تو کل آپ کی طبیعت پر بہت بُرا اثر پڑنے والا ہے، تو یہ بات عقل کو لگتی، ہو سکتا کہ اس سے عربی، سگریٹ نوشی سے باز آ جاتا. س ظ ٹپٹوری، ١٠/ربیع الاول ١٤٤٧ھ.

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

گھی چور ملازم

گھی چور ملازم

ایک بندہ کریانے کی ایک دکان پر ملازم تھا. وہ کسی نہ کسی بہانے دکان سے کچھ نہ کچھ چوری کرتا رہتا تھا. دکان کا مالک بڑا ہی خوش اخلاق اور امانتدار انسان تھا. وقت گزرتا گیا اور دس بارہ سال گزر گئے. اللہ نے مالک کو خوب برکت دی اور اس کی دکان شہر کی سب سے بڑی دکان بن گئی. روزانہ لاکھوں کی آمدن ہونے لگی. ایک دن اس ملازم کے گھر سے ٹفن میں کھانا آیا ہوا تھا. ملازم نے چوری سے ٹفن میں دیسی گھی ڈال دیا. اللہ کی شان کہ واپس لے جاتے ہوئے اس کے بچے سے ٹفن نیچے گر کر کھل گیا اور اس کی چوری پکڑی گئی. مالک کا بیٹا غصہ میں آ گیا اور ملازم کو برا بھلا کہنے لگا مگر مالک نے اپنے بیٹے کو سختی سے روک دیا اور کہا: " بیٹا! اسے چھوڑ دو. تمہیں آج پتہ چلا ہے کہ یہ چوری کرتا ہے مگر مجھے پچھلے بارہ سال سے معلوم ہے. اس کے باوجود میں نے اسے کبھی سمجھانے کے علاوہ کچھ نہیں کہا. بس اتنا سوچو کہ ہمارے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کی روزانہ کی چوری کے باوجود بھی ہم کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیں اور یہ بارہ سال چوری کرکے بھی آج تک ملازم کا ملازم ہی ہے." اسی طرح امانتدار انسان اپنی ایمانداری اور محنت کے ذریعے کہاں سے کہاں جا پہنچتا ہے مگر دھوکہ باز اور چور گندگی میں ہی پڑا رہ جاتا ہے. منقول!