فیوڈور دوستوفسکی اپنی ناول ”المساكين“ میں کہتے ہیں: شاید میں جلد مر جاؤں، تب کوئی مجھے یاد نہیں کرے گا، اور نہ ہی میری قبر پر کوئی رُکے گا۔ کچھ لوگ جو مجھے جانتے تھے کہیں گے: وہ شریف اور نیک آدمی تھا، اور کچھ دوسرے کہیں گے: وہ کمینہ اور گھٹیا تھا۔ میرا ورق زندگی کے رجسٹر سے لپیٹ دیا جائے گا، اور میرے آنے کا کوئی نشان باقی نہ رہے گا۔ زندگی میرے بعد بھی ویسی ہی چلے گی جیسی پہلے تھی، اُس میں کچھ نہیں بدلے گا، سورج روز کی طرح طلوع ہوگا اور شام کو غروب ہو جائے گا۔ واحد چیز جو بدلے گی، وہ میری غیر موجودگی ہوگی۔ اور یوں میں نے اپنی ساری زندگی بےچینی اور شک میں گزار دی، اُس سے ڈرتا رہا جو ہو چکا، اور اُس سے بھی جو ہونے والا ہے، خود کو بھول بیٹھا اور دوسروں کی باتوں میں اُلجھا رہا۔



