‏اللہ سے مانگ..... خاتون کا شاپنگ بیگ پھٹ گیا، اس میں سے ایک سرخ سیب نکلا، سڑک پر گرا اور لڑھکنے لگا، خاتون نے بیگ فوراً سنبھال لیا، میرا موٹر سائیکل اس موٹر سائیکل کے پیچھے تھا، وہ غالباً میاں بیوی تھے اور سیب خرید کر گھر جا رہے تھے، خاوند موٹر سائیکل چلا رہا تھا جب کہ بیوی گود میں سیبوں کا بیگ رکھ کر بیٹھی تھی، بیگ پھٹ گیا اور اس میں سے ایک سیب نکل کر سڑک پر لڑھکنے لگا۔۔۔ سڑک پر رش تھا، درجنوں گاڑیاں، موٹر سائیکل اور سائیکل گزر رہے تھے، مجھے محسوس ہوا سیب کسی نہ کسی ٹائر کی زد میں آ کر چورا ہو جائے گا مگر سیب ہر گاڑی، ہر ٹائر سے بچتا ہوا تیزی سے آگے بڑھا اور لڑھکتا ہوا سڑک کے کنارے پہنچ گیا، کنارے پر پلی تھی اور پلی پر ایک بھکاری بیٹھا تھا، سیب لڑھکتا ہوابھکاری کے قریب آیا اور گیند کی طرح اچھل کر اس کی رینج میں آ گیا، بھکاری نے سیب اچکا، اپنی میلی اور گندی قمیض کے ساتھ رگڑ کر صاف کیا اور کچڑ کچڑ کھانے لگا، وہ آسمان کی طرف دیکھ کر مسکرا بھی رہا تھا۔۔ میں نے موٹر سائیکل روک لی، اسے سلام کیا اوراس سے پوچھا یہ سیب تم تک کیسے پہنچ گیا؟ بھکاری نے قہقہہ لگایا اور بولا، میں نے ابھی ابھی اللہ سے شکوہ کیا تھا یا باری تعالیٰ تیرے بندے کو سیب کھائے ہوئے مدت ہوگئی ہے اگر تم مہربانی کر دو تو میں بھی جاتے موسم کا سیب چکھ لوں اور پھر پتا نہیں کہاں سے یہ سیب آیا اور اچھل کر میرے ہاتھ تک پہنچ گیا، بھکاری اس کے بعد شکر ادا کرنے لگا، میری آنکھوں میں آنسو آ گئے، میں نے بھکاری سے ہاتھ ملایا اور آگے روانہ ہوگیا، میری آنکھیں کھولنے کے لیے یہ واقعہ کافی تھا۔۔۔۔۔

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

یاد میں تیری سب کو بھلا دوں

یاد میں تیری سب کو بھلا دوں

حضرت یحییٰ بن معاذ رحمہ اللہ تعالیٰ جن کو حقائق و دقائق پر مکمل دسترس حاصل تھی ، اور جن کے متعلق بعض بزرگوں کا کہنا ہے کہ جس طرح انبیاء میں حضرت یحییٰ بن زکریا علیہما الصلوۃ والسلام کا مقام ہے اسی طرح بزرگان دین میں حضرت یحییٰ بن معاذ رحمہ اللہ تعالیٰ کی حیثیت ہے۔ تاثر آمیز مواعظ کی وجہ سے آپ کو واعظ کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔ آپ کے ایک بھائی بحیثیت مجاور کے مکہ معظمہ میں بھی مقیم تھے اور انہوں نے وہاں سے تحریر کیا کہ مجھے تین چیزوں کی بے حد تمنا تھی اول یہ کہ کسی متبرک مقام پر سکونت کا موقعہ مل جائے، دوم یہ کہ میری خدمت کے لئے ایک نیک خادم بھی ہو، لہذا یہ دونوں خواہشیں پوری ہو گئیں۔ اب تیسری خواہش یہ ہے کہ مرنے سے پہلے ایک مرتبہ آپ سے ملاقات ہو جائے یہ میری دلی خواہش ہے خدا سے دعا کیجئے کہ وہ اپنی قدرت سے یہ تمنا بھی پوری کر دے، آپ رحمہ اللہ تعالٰی نے جواب میں یہ تحریر فرمایا کہ انسان کو تو بذات خود متبرک ہونا چاہئے تا کہ اس کی برکت سے جائے قیام بھی متبرک ہو جائے، دوسری بات یہ ہے کہ آپ کو تو خود خادم بننا چاہئے تھا نہ کہ مخدوم ، انسان کی شان ہی غلامی ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ اگر آپ خدا کی یاد سے غافل نہ ہوتے تو میں آپ کو ہرگز یاد نہ آتا۔ لہذا یاد الہی میں بہن بھائی بیوی بچے سب کو فراموش کر دینا چاہئے ، اگر آپ دنیا میں عبادت سے خدا ہی کو راضی نہیں کر سکتے تو پھر مجھ سے ملاقات بھی بے سود ہے۔ ( تذکرۃ الاولیاء : صفحه ۱۷۳) خواجہ مجذوب فرماتے ہیں۔ یاد میں تیری سب کو بھلا دوں کوئی نہ مجھ کو یا در ہے تجھ پر سب گھر بار لٹا دوں خانہ دل آباد رہے سب خوشیوں کو آگ لگا دوں غم سے ترے دل شاد رہے سب کو نظر سے اپنی گرادوں تجھ سے فقط فریا د رہے اب تو رہے بس تا دم آخر ورد زباں اے میرے اله لا اله الا الله لا اله الله (کتاب : اسلاف کی یادیں۔ صفحہ: ۲۲۷۔۲۲۸ ۔ مصنف: حضرت مولانا مفتی اسد اللہ عمر نعمانی۔ ناقل: اسلامک ٹیوب پرو ایپ)