پیاری خالہ! 12 جون 2025 کا دن میرے لیے ہمیشہ یادگار رہے گا — مگر افسوسناک اور دردناک یاد کے طور پر۔ دوپہر کا وقت تھا، موسم شدید گرم تھا۔ اچانک سوشل میڈیا پر بجلی بن کر ایک خبر وائرل ہوئی کہ احمد آباد سے لندن جانے والا طیارہ، اُڑان بھرنے کے کچھ ہی لمحوں بعد ایک ہاسٹل پر جا گرا جہاں میڈیکل کے طلبہ رہتے تھے۔ اس پرواز میں کل 242 افراد سوار تھے جن میں سے صرف ایک کی جان بچی، باقی سب جان کی بازی ہار گئے۔ اور ہاسٹل میں موجود کئی لوگ بھی اس حادثے کی نذر ہو گئے۔ اس حادثہ کی مختلف ویڈیوز دیکھ کر پہلے ہی دل صدمہ میں تھا کہ یہ دردناک خبر بھی مل گئی کہ اس کریش شدہ طیارے میں میری خالہ بھی موجود تھیں، جو اپنی بیٹی کو ملنے لندن جا رہی تھیں، اس خبر کو سنتے ہی رونگٹے کھڑے ہوگئے، طرح طرح کے خیالات آنے لگے، دل ہی دل میں دعا کی کہ اللہ میری خالہ کو بچالے، لیکن اللہ کا فیصلہ نافذ ہوچکا تھا، خالہ دار فانی کو چھوڑ کر دار بقا کی طرف روانہ ہوچکی تھیں، شہادت پا چکی تھیں، دنیا کی پریشانیوں سے نجات پاکر آخرت کی راحت پانے کیلیے منتقل ہو چکی تھیں۔۔۔۔انا للہ و انا الیہ راجعون خالہ میری والدہ سے عمر میں چھوٹی تھیں، والدہ کو ان سے گہرا تعلق تھا، دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتی تھیں، لندن جانے سے پہلے خالہ نے والدہ سے کھانے کی ایک چیز کی فرمائش بھی کی تھی، جو عام طور پر بارش کے موسم میں بنائی جاتی ہے، والدہ نے خوشی خوشی وہ چیز تیار کر کے بھیج دی تھیں، چونکہ ان کا لندن جانا طے ہو چکا تھا اسلیے یہ کہ دیا تھا کہ وہ چیز فریج میں رکھوا دینا میں واپس آکر کھالوں گی، مگر کسے پتہ تھا کہ وہ واپسی کا دن کبھی آنے والا نہیں ہے اور ان کی یہ محبوب چیز کھانے کی خواہش ادھوری رہ جانے والی ہے، جمعرات کو جب وہ لندن جانے کیلیے روانہ ہوئیں اسی دن ان کی وہ محبوب چیز والدہ نے ان کے گھر پہنچانے کیلیے روانہ کردی،ایک طرف ان کی یہ محبوب چیز گھر پر پہنچنے والی تھی اور دوسری طرف وہ موت کی سواری پر سوار ہونے جا رہی تھیں۔ والدہ نے روتے ہوئے بتایا کہ وہ لندن جانے کیلیے کافی خوش تھیں، ظاہر سی بات ہے اپنی بیٹی سے ملنے کی خوشی کسے نہیں ہوگی! یقینا کافی تمنائیں اور امیدیں لیکر جا رہی ہوں گی، لیکن یہی اس دنیا کی حقیقت ہے کہ یہاں ساری خواہشیں پوری نہیں ہوتی، یہ دنیا اچانک دھوکا دے جاتی ہے۔ اس قسم کے حادثات دنیا والوں کیلیے بڑی عبرت چھوڑ جاتے ہیں، اسمیں سب سے بڑی عبرت یہ ہے کہ اس زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں، اس کا خاتمہ کب اور کہاں ہو جائے کوئی نہیں جانتا، قرآن میں اللہ نے یہ بات مختلف انداز میں سمجھائی ہے۔۔ ایک جگہ اللہ نے فرمایا: اَیْنَ مَا تَكُوْنُوْا یُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ كُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَةٍ، النساء 78"۔۔تم جہاں کہیں بھی رہو موت تو تم کو آ پکڑے گی، چاہے مضبوط قلعوں میں کیوں نہ ہو! اسی طرح فرمان خدا ہے: وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌۢ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۔ لقمان 34، کسی شخص کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ کس زمین میں اس کی موت واقع ہوگی ؟ یقیناً اللہ ہی خوب جاننے والے اور خوب باخبر ہیں ۔ ‌‌اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ:‌‌ ‌‌" اِنَّ اَجَلَ اللّٰہِ اِذَا جَآءَ لَا یُؤَخَّرُ ۘ لَوْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ نوح 4‌‌" ‌‌۔۔۔جب اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت آ جاتا ہے تو ٹالا نہیں جاتا، کاش کہ تم سمجھ جاتے! ‌‌ ‌‌یعنی جب کسی انسان کی موت کا وقت آتا ہے تو وہ ٹلتا نہیں، نہ ایک گھڑی آگے ہوتا ہے نہ ایک گھڑی پیچھے۔۔۔ ایسے حادثات کے بعد بھی انسان اپنی زندگی کو تبدیل نہ کرے، آپس کی نفرتوں کو نہ بھلائیں، بلکہ وہی آپس کی دشمنی والی زندگی گزارتا رہے تو اس سے بڑا محروم کوئی نہیں ہو سکتا، انسان دنیا کے حقیر سامان کی وجہ سے اپنوں سے رشتہ توڑ لیتا ہے، سالہا سال گزر جاتے ہیں بھائی بھائی میں بات نہیں ہوتی، بھائی بہنوں میں بات نہیں ہوتی، ایک سینے سے دودھ پینے والے ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں، لیکن جب ایسے حادثات ہوتے ہیں تو انسان افسوس کرنے لگتا ہے، اپنی پچھلی زندگی پر شرمانے لگتا ہے اور سوچنے لگتا ہے کاش میں نے جانے والے سے اچھا تعلق بنا لیا ہوتا، لیکن اس وقت افسوس کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔اس سے پہلے کہ ہم میں سے کسی پر ایسا حال آئے، ابھی سے اپنے دلوں کو صاف کر لیجیے! اپنوں کو معاف کردیجیے! اگر آپ نے والدین کو ناراض کیا ہے تو معافی مانگ لیجیے! اگرآپ کے بھائی یا بہن سے یا اور کسی رشتہ دار سے آپ کا تعلق ٹوٹ چکا ہے تو اسے جوڑ لیجیے، اگر اس کیلیے جھکنا پڑے تو جھک جائیے، اللہ کی قسم آپ کا یہ جھکنا آپ کو اونچا کردے گا۔۔۔پیارے آقاﷺ کا فرمان ہے: جو اللہ کیلیے جھکتا ہے اللہ اسے اونچا کردیتا ہے۔۔۔۔ تقریبا چار دن کے انتظار کے بعد پیر کی رات ڈھائی بجے خالہ جان تابوت میں سوار ہوکر ہمارے سامنے آئیں، جب یہ تابوت پہنچا تو ہر آنکھ اشکبار تھی، ہمیشہ مسکرانے اور ہنسنے والی خالہ آج خاموش تھیں اور سب کو رلا رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔😢خالہ ہمیں چھوڑ گئیں، مگر ایک زبردست پیغام دے گئیں: "زندگی فانی ہے، یہ اچانک ختم ہو جاتی ہے، اسلیے دلوں کو صاف رکھو، رشتوں کو نبھاؤ، اور ہر وقت موت کیلیے تیار رہو!"اللہ تعالیٰ خالہ کی مغفرت فرمائے، ان کو شہداء میں شمار فرمائے، ہمیں اور خاص طور پر ان کے شوہر اور بیٹے بیٹیوں کو صبر جمیل نصیب فرمائے، ہمیں ان کیلیے ایصال ثواب کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔۔۔ آمین مبشر کاوی

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

علّامہ اِقبال اور جذبہ اطاعت رسول

علّامہ اِقبال اور جذبہ اطاعت رسول

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے سنت رسول کی پیروی کو اپنا شیوہ حیات بنالیا تھا۔ جوہر اقبال میں ایک عجیب اور بصیرت افروز واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ جس سے علامہ اقبال کے جذبہ شوق و اطاعت رسول کا اندازہ ہوتا ہے۔ لکھتے ہیں کہ پنجاب کے ایک دولت مند رئیس نے ایک قانونی مشورے کے لیے اقبال اور سر فضل حسین اور ایک دو مشہور قانون دان اصحاب کو اپنے ہاں بلایا، اور اپنی شاندار کوٹھی میں ان کے قیام کا انتظام کیا۔ رات کو جس وقت اقبال اپنے کمرے میں آرام کرنے کے لیے گئے تو ہر طرف عیش و تنعم کے سامان دیکھ کر، اور اپنے نیچے نہایت نرم اور قیمتی بستر پا کر معا ان کے دل میں یہ خیال آیا کہ جس رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتیوں کے صدقے میں آج ہم کو یہ مرتبے حاصل ہوئے ہیں، اس نے بوریے پر سوکر زندگی گزار دی تھی ۔ یہ خیال آنا تھا کہ آنسوؤں کی جھڑی بندھ گئی۔ اسی بستر پر لیٹنا ان کے لیے ناممکن ہو گیا۔ اٹھے اور برابر کے غسل خانے میں جا کر ایک کرسی پر بیٹھ گئے، اور مسلسل رونا شروع کر دیا۔ جب ذرا دل کو قرار آیا تو اپنے ملازم کو بلوا کر اپنا بستر کھلوایا ، اور ایک چار پائی اسی غسل خانے میں بچھوائی۔ اور جب تک وہاں مقیم رہے، غسل خانے ہی میں سوتے رہے۔ یہ وفات سے کئی برس پہلے کا واقعہ ہے۔ (محمد حسنین سید۔ جوہر اقبال - ص 39-40، مطبوعہ مکتبہ جامعہ دہلی 1938)(ماہنامہ صدائے اسلام/ستمبر/۲۰۲۴)