سہولتوں کا سیلاب اور روح کی موت ایک ایسی کہانی، جو چوہوں سے شروع ہوئی… اور انسانیت تک جا پہنچی۔ اگر کسی مخلوق کو ہر سہولت دے دی جائے — وافر خوراک، محفوظ رہائش، سکون، اور کوئی خطرہ نہ ہو — تو کیا وہ ہمیشہ خوش و خرم اور ترقی یافتہ رہے گی؟ یہ سوال حیاتیات کے ایک امریکی ماہر جان کلہون نے 1970ء میں چوہوں پر ایک چونکا دینے والا تجربہ کر کے دنیا کے سامنے رکھ دیا۔ کلہون نے ایک مثالی ماحول تخلیق کیا، کھانے پینے کی کمی نہیں، رہائش وسیع، دشمن کوئی نہیں۔ وہاں صرف چار جوڑے چوہوں کو چھوڑا۔ کچھ ہی عرصے میں ان کی آبادی تیزی سے بڑھی۔ امن، آرام اور سہولتوں سے بھرپور "جنت" میں ہر چیز مکمل تھی… مگر پھر کچھ عجیب ہونے لگا۔ 315 دن بعد افزائش کی شرح کم ہونے لگی، سماجی ڈھانچہ بگڑنے لگا، چوہوں میں تشدد، گوشہ نشینی، ذہنی بیماری، بچوں کو چھوڑ دینا، اور حتیٰ کہ ایک دوسرے کو کھانا جیسے رویے پیدا ہونے لگے۔ کچھ چوہے مکمل بے مقصد زندگی گزارنے لگے — نہ لڑائیاں، نہ تعلقات، نہ افزائش نسل… صرف کھاتے، سوتے، اور وقت گزارتے۔ اور پھر سب کچھ ہوتے ہوئے بھی یہ مثالی دنیا تباہ ہو گئی۔ کسی نے حملہ نہیں کیا، کوئی آفت نہیں آئی، کوئی کمی نہیں ہوئی — بس جینے کا مقصد ختم ہو گیا۔ آخری چوہا 2 سال بعد پیدا ہوا… اور پھر موت کے سوا کچھ نہ بچا۔ یہ تجربہ 25 مرتبہ دہرایا گیا، اور ہر بار نتیجہ وہی تھا: سہولت زدہ معاشرہ، بغیر مقصد کے زندگی، اور پھر مکمل تباہی۔ سوچنے کی بات ہے کہ کیا صرف سہولتیں، آسائشیں، اور تحفظ ہی انسان یا معاشرہ کی کامیابی کی ضمانت ہیں؟ یا ہمیں جینے کے لیے ایک "مقصد"، ایک "جدوجہد"، اور کچھ چیلنجز درکار ہوتے ہیں؟ اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے اور اگر الله اپنے بندوں کے لیے رزق کشادہ کر دیتا، تو وہ ضرور زمین میں سرکشی کرنے لگتے، لیکن وہ ایک اندازے کے ساتھ (یعنی جتنا مناسب ہو) نازل فرماتا ہے، جیسا وہ چاہتا ہے۔" [سورۃ الشورى: 27] زندگی صرف آرام کا نام نہیں… بلکہ ذمہ داری، قربانی، اور جدوجہد کا نام ہے۔ جس معاشرے سے یہ سب ختم ہو جائے، وہ کتنا بھی آرام دہ ہو… وہ اندر سے مرنا شروع ہو جاتا ہے۔ دنیا میں مشکلات، کمی، اور جدوجہد دراصل انسان کو متوازن، مضبوط اور زندہ رکھتی ہیں۔ آسانی اگر بے قابو ہو جائے، تو وہ تباہی کا دروازہ کھول دیتی

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

پیدل چلتے ہوئے مطالعہ

پیدل چلتے ہوئے مطالعہ

اسلاف کے ہاں شوقِ مطالعہ اور اہمیتِ وقت کا یہ عالم تھا کہ پیدل چلتے ہوئے بھی کتاب کا مطالعہ جاری رہتا۔ ابن الآبنوسی کہتے ہیں کہ علامہ خطیب بغدادیؒ پیدل چل رہے ہوتے تو ہاتھ میں کتاب لیے اس کا مطالعہ کر رہے ہوتے۔ (سیر اعلام النبلاء، ١٨: ٢٨١) نحو کے ایک بے بدل عالم علامہ احمد بن یحیٰ جو ثعلب کے نام سے مشہور ہیں، ان کو تو یہ شوق بہت ہی مہنگا پڑا۔ یہ مطالعے کے رسیا تھے اور ثقلِ سماعت کا شکار تھے، اس لیے اونچا سنائی دیتا تھا۔ ایک مرتبہ جمعے کے دن عصر پڑھ کر جامع مسجد سے نکلے تو حسبِ معمول کتاب کھولی اور پیدل چلتے ہوئے پڑھنے میں مگن ہو گئے۔ راستے میں گھوڑے نے دولتی جھاڑ دی؛ پاس ہی ایک گہرا کھڈا تھا، یہ اس میں جا گرے۔ ان کو دماغ پہ چوٹ آئی؛ اسی حال میں گھر لے جایا گیا مگر اگلے روز یہ عاشق کتب انتقال کر گئے! (ابن خلکان، وفیات الاعیان، ١: ١٠٤) [انتخاب و ترجمانی: طاہر اسلام عسکری]