بونال" تہوار — تاریخی پس منظر اور شرعی نقطۂ نظر" محسن احسان رحمانی : ریاست تلنگانہ، خصوصا حیدرآباد اور سکندرآباد میں منایا جانے والا ایک مشہور ہندو تہوار "بونال" ہے۔ یہ لفظ تیلگو زبان کے "بونم" سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے پکوان یا نذر۔ اس تہوار میں خواتین اپنی دیوی "مہانکالی" (کالی ماتا) کو خوش کرنے کے لیے پکوان، چاول، دہی، شکر ناریل؛ مٹی یا تانبے کے برتن میں سجا کر مندروں میں لے جاتی ہیں۔ :تاریخی پس منظر تلنگانہ تاریخ کے حوالہ سے لکھا گیا ہے کہ1869 میں حیدرآباد میں شدید وبا پھیلی تھی۔ مقامی لوگوں نے عقیدہ بنا لیا کہ یہ وبا "دیوی مہانکالی" کے قہر کی وجہ سے ہے۔ چنانچہ وبا سے نجات کی منت مانی گئی کہ اگر دیوی ناراضگی دور کرے گی تو پکوان چڑھائے جائیں گے۔ وبا ختم ہوئی تو یہ رسم بطور تہوار رائج ہو گئی۔ (حوالہ: A History of Telangana — P.V. Parabrahma Sastry) یہ تہوار عموماً آشاڑھ مہینے میں یعنی گرمی کی شدت کے بعد بارش کے موسم جولائی میں منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر جلوس، ڈھول، مقامی لوک ناچ اور مذہبی گیتوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ "پوتراجو" نامی نوجوان تلوار اور کوڑا لے کر جلوس کی قیادت کرتا ہے۔ :پوتراجو کا کردار اس بونال تہوار میں خاص طور پر تلنگانہ اور مہاراشٹر کے علاقوں سے جڑا ہوا ایک روایتی مذہبی کردار پوتراج کا ہے یہ اس سماج کے غریب یا نچلے طبقے کے لوگ ہوتے ہیں جو خاص طور پر ہندو دیویوں کی خدمت کے لیے اپنی زندگی وقف کرتے ہیں۔ یہ لوگ پیلی پگڑی رنگین کپڑے رنگین جسم، ہاتھ میں کوڑا اور ڈھول لیے خود کو مارتے اور رقص کرتے گھومتے ہیں۔ دیوی کی پوجا، جگراتا (رات بھر جاگ کر عبادت)، نذر نیاز اکٹھا کرنا ان کا کام ہوتا ہے۔ یہ کوڑا مار کر اپنے جسم پر زخم کرتے ہیں— اسکو "تپسیہ" بھی سمجھا جاتا ہے :کالی ماتا یا مہانکالی مہانکالی کا مطلب ہے انتہائی طاقتور، سب برائیوں کو فنا کرنے والی، سب شکتیوں کی ماں۔یہ خاص طور پر طاقت میں سب سے بڑی دیوی مانی جاتی ہے۔ :بونال کی نوعیت "بونال" بنیادی طور پر مہانکالی دیوی (کالی ماتا) کی پوجا، منت اور نذر و نیاز کا تہوار ہے۔ اس کا مقصد بیماریوں، آفتوں اور وباؤں سے بچنے کے لیے دیوی کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔ :بونال جیسی رسومات کی شرعی حیثیت اسلام میں عبادت، نذر و نیاز اور دعا صرف اللہ کے لیے خاص ہے۔ قرآن کہتا ہے "وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ" (البینہ: 5) "اور انہیں حکم یہی دیا گیا تھا کہ اللہ کی عبادت خالص اسی کے لیے کریں۔" غیر اللہ کے نام پر نذر نیاز، دعا یا منت ماننا شرک اکبر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: إِنَّ اللَّهَ لاَ يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ" (النساء: 48) "بیشک اللہ شرک کو معاف نہیں کرے گا۔" بونال میں غیر اللہ (دیوی مہانکالی) کے نام پر پکوان چڑھانا، دعا مانگنا اور خوشنودی کی رسومات ادا کرنا واضح شرک ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ" (سنن ابی داؤد: 4031) "جو جس قوم کی مشابہت کرے وہ انہی میں سے ہے۔" :اللہ فرماتے ہیں إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّة (جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا، اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی — سورۃ المائدہ: 72) :نذر و نیاز کا حکم :نذر اللہ کے لیے ہوتی ہے قرآن کریم میں ہے إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ [البقرة: 173] اس آیت کے ذیل میں حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: " یہاں ایک چوتھی صورت اور ہے جس کا تعلق حیوانات کے علاوہ دوسری چیزوں سے ہے، مثلاً مٹھائی، کھانا وغیرہ جن کو غیراللہ کے نام پر نذر (منت) کے طور سے ہندو لوگ بتوں پر اور جاہل مسلمان بزرگوں کے مزارات پر چڑھاتے ہیں، حضرات فقہاء نے اس کو بھی اشتراکِ علت یعنی تقرب الی غیراللہ کی وجہ سے "ما اہل لغیر اللہ" کے حکم میں قرار دے کر حرام کہا ہے، اور اس کے کھانے پینے دوسروں کو کھلانے اور بیچنے خریدنے سب کو حرام کہا ہے" ۔ حدیث: مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ فَلَا يَعْصِهِ» (جس نے اللہ کی اطاعت کی نذر مانی تو پوری کرے، اور جس نے نافرمانی کی نذر مانی تو پوری نہ کرے — (صحیح بخاری: 6696) :دارالعلوم دیوبند کا فتوی غیرمسلموں کے مذہبی امور میں شرکت کرنا ناجائز اور حرام ہے، آپسی تعلقات یا دباوٴ کی وجہ سے بھی ایسے امور کرنا قطعا جائز نہیں، قرآن پاک کا حکم ہے وَلَا تَرْکَنُوا إِلَی الَّذِینَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ یعنی اے مسلمانو! ظالموں (کافروں) کی طرف (ان کے مذہبی امور یا احوال واعمال میں مشارکت ومشابہت سے) مت جھکو کبھی تم کو دوزخ کی آگ لگ جائے۔ جب ادنی میلان اور مشابہت سے دوزخ میں جانے کا خطرہ ہے تو کفریہ اور شریکہ اعمال کرنا اور مذہبی امور انجام دینا کس قدر سنگین جرم ہوگا، جس کے نتیجہ میں ایمان سلب ہوجانا اور کفر کے گروہ میں شامل ہوجانا کوئی بعید نہیں۔ (العیاذ باللہ، ناچنا، تالیاں بجانا، گیت گانا) یہ سب غیروں کاطریقہ ہے اسلام ان کی سختی کے ساتھ مذمت کرتا ہے اللہ مسلمانوں کو اس گناہ میں شامل ہونے سے محفوظ فرمائے-آمین ٢٤/محرم الحرام ۱۴۴۷ھ اتوار 20_جولائی 2025

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

شمعِ فروزاں: دینِ حق اور ابراہیمی فتنہ

شمعِ فروزاں: دینِ حق اور ابراہیمی فتنہ

(ملخص - اسلامک ٹیوب پرو اپپ ) اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے لیے ایک مقرر راستہ بنایا ہے۔ کھانا منہ سے معدے تک جاتا ہے، جہاں لعاب اسے ہضم کے قابل بناتا ہے۔ سانس ناک سے پھیپھڑوں تک جاتی ہے۔ اگر کوئی اس قدرتی نظام کو بدلنے کی کوشش کرے، جیسے کھانا ناک میں ڈالے، تو زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح، اللہ نے انسان کی دنیاوی اور اخروی کامیابی کے لیے ایک راستہ بنایا—اسلام۔ یہ وہ دین ہے جو اللہ کے رسولوں نے سکھایا، جس میں اللہ کی رضا کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: إن الدين عند الله الإسلام (آل عمران: 19)۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ مقبول نہیں، جیسا کہ فرمایا: ومن يتبع غير الإسلام دينا فلن يقبل منه (آل عمران: 85)۔ اسلام کی آفاقی حقیقت اسلام اول دن سے موجود ہے۔ حضرت آدمؑ سے لے کر تمام انبیاء نے اسی کی دعوت دی۔ حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹوں کو اسی کی وصیت کی: فلا تموتن إلا وأنتم مسلمون (البقرہ: 132)۔ ان کی نسل سے دو عظیم شاخیں پھیلیں—حضرت اسماعیلؑ سے نبی اکرمﷺ اور حضرت اسحاقؑ سے انبیاء بنی اسرائیل۔ مکہ میں کعبہ اور بیت المقدس کی تعمیر بھی حضرت ابراہیمؑ کے ہاتھوں ہوئی۔ یہودیت اور عیسائیت بھی انہی سے منسوب ہیں، مگر تحریف نے ان کی اصلیت مسخ کردی۔ صرف اسلام، جو قرآن اور نبیﷺ کے ذریعے مکمل ہوا، دینِ ابراہیمی کی سچی شکل ہے۔ ابراہیمی فتنہ: مغرب کی سازش آج مغرب ’ابراہیمیہ‘ کے نام سے ایک نیا فتنہ پھیلا رہا ہے، جس کا مقصد اسلام، یہودیت اور عیسائیت کو ملا کر ایک نیا مخلوط مذہب بنانا ہے۔ اس کی ابتدا 1979 کے کیمپ ڈیوڈ معاہدے سے ہوئی، جب امریکی صدر جمی کارٹر نے ’ابراہیم کے بیٹوں‘ کے لیے امن کی بات کی۔ 1993 کے اوسلو اور 1994 کے اردن-اسرائیل معاہدوں میں بھی یہی اصطلاح استعمال ہوئی۔ 2020 میں ’ابراہام ایکارڈ‘ کے تحت عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل سے تعلقات استوار کیے، اور ابوظہبی میں ’ابراہیمہ ہاؤس‘ بنایا گیا، جہاں مسجد، چرچ اور یہودی عبادت گاہ ایک ہی احاطے میں ہیں۔ یہ وحدتِ ادیان کی عالمی کوشش ہے، جو مستقبل میں ہندو اور بدھ مت کو بھی شامل کر سکتی ہے۔ اسلام کا ردعمل اسلام میں مخلوط مذہب کا کوئی تصور نہیں۔ عقیدہ توحید، شریعت اور اخلاق پر مبنی اسلام دیگر مذاہب سے الگ ہے۔ یہودیت اور عیسائیت نے شریعت کو ترک کردیا، جبکہ اسلام نے حلال و حرام کے احکام کو نظام کی شکل دی۔ سود اور زنا کی حرمت پر قرآن اور تورات کا اتفاق ہے، مگر مغرب انہیں فروغ دیتا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے شرک سے براءت کا اعلان کیا: إني بريء مما تشركون (الانعام: 78)۔ نبیﷺ نے بھی مکہ والوں کی مخلوط مذہب کی پیشکش ٹھکرائی: لا أعبد ما تعبدون (الکافرون: 2)۔ مسیلمہ کذاب اور اکبر کے ’دین الٰہی‘ جیسی کوششیں بھی ناکام ہوئیں۔ حل کیا ہے؟ مذاہب کے درمیان رواداری کا راستہ قرآن نے بتایا: لكم دينكم ولي دين (الکافرون: 6)۔ ہر مذہب اپنے عقیدے پر قائم رہے اور دوسروں کے حقوق کا احترام کرے۔ جان، مال، عزت اور مذہبی جذبات کی حفاظت ضروری ہے۔ مسلمانوں کو اس فتنے سے ہوشیار رہنا چاہیے اور دینِ حق پر استقامت دکھانی چاہیے۔ اللہ عالمِ اسلام کو اس سازش سے محفوظ رکھے۔