ملفوظ: صحبت کے آثار *ملفوظاتِ حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ* *صحبت کے آثار* ارشاد فرمایا کہ اگر اپنے اخلاق کی اصلاح کرنا ہے تو کسی ایسے شخص کی صحبت اختیار کیجئے جو اخلاقِ حمیدہ رکھتا ہو اور اس سے تعلق پیدا کیجئے اور اس کا اتباع کیجئے۔ یہ ہے علاج جس سے برے اخلاق دور ہوتے ہیں اور اچھے اخلاق پیدا ہوتے ہیں اور نرے پڑھنے پڑھانے سے یہ کام نہیں ہوسکتا۔ صحبت عجب چیز ہے، صحبت جب شرائط کے ساتھ یعنی معہ قصد تابعیت پائی جاوے تو ضرور مؤثر ہوتی ہے۔ تجربہ کرلیجئے کہ ایک غصیارا آدمی جو بات بات پر لوگوں سے لڑتا ہو چند روز ایک حلیم اور بردبار آدمی کے پاس بیٹھے تو اس میں حلم پیدا ہوجائےگا یا اس کے برعکس ایک حلیم اور سرد مزاج آدمی کسی غصیارے آدمی کے یا کسی حکومت والے کے پاس چند روز بیٹھے تو اس میں ضرور کچھ نہ کچھ تیزی اور گرمی پیدا ہوجاوے گی۔ حیا دار آدمی کے پاس بیٹھنے سے حیا، اور بے حیا آدمی کے پاس بیٹھنے سے بے حیائی، اور بک بک کرنے والے کے پاس بیٹھنے سے بک بک کرنا اور فضول گوئی، اور باوقار آدمی کے پاس بیٹھنے سے سکوت اور وقار پیدا ہوتا ہے۔ یہ آثار صحبت سے پیدا ہوتے ہیں، لکھنے پڑھنے اور کتابوں کے دیکھنے سے نہیں ہوتے۔ (السوق لاهل الشوق، مواعظ اشرفیہ، جلد ۳، صفحہ ۹۶)

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

گھی چور ملازم

گھی چور ملازم

ایک بندہ کریانے کی ایک دکان پر ملازم تھا. وہ کسی نہ کسی بہانے دکان سے کچھ نہ کچھ چوری کرتا رہتا تھا. دکان کا مالک بڑا ہی خوش اخلاق اور امانتدار انسان تھا. وقت گزرتا گیا اور دس بارہ سال گزر گئے. اللہ نے مالک کو خوب برکت دی اور اس کی دکان شہر کی سب سے بڑی دکان بن گئی. روزانہ لاکھوں کی آمدن ہونے لگی. ایک دن اس ملازم کے گھر سے ٹفن میں کھانا آیا ہوا تھا. ملازم نے چوری سے ٹفن میں دیسی گھی ڈال دیا. اللہ کی شان کہ واپس لے جاتے ہوئے اس کے بچے سے ٹفن نیچے گر کر کھل گیا اور اس کی چوری پکڑی گئی. مالک کا بیٹا غصہ میں آ گیا اور ملازم کو برا بھلا کہنے لگا مگر مالک نے اپنے بیٹے کو سختی سے روک دیا اور کہا: " بیٹا! اسے چھوڑ دو. تمہیں آج پتہ چلا ہے کہ یہ چوری کرتا ہے مگر مجھے پچھلے بارہ سال سے معلوم ہے. اس کے باوجود میں نے اسے کبھی سمجھانے کے علاوہ کچھ نہیں کہا. بس اتنا سوچو کہ ہمارے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کی روزانہ کی چوری کے باوجود بھی ہم کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیں اور یہ بارہ سال چوری کرکے بھی آج تک ملازم کا ملازم ہی ہے." اسی طرح امانتدار انسان اپنی ایمانداری اور محنت کے ذریعے کہاں سے کہاں جا پہنچتا ہے مگر دھوکہ باز اور چور گندگی میں ہی پڑا رہ جاتا ہے. منقول!