​​حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا ایک قبر سے مکالمہ: ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ایک مرتبہ آپ اپنے ایک عزیز کے جنازے کے ساتھ قبرستان تشریف لے گئے ـ قبرستان میں پہنچ کر آپ الگ تھلگ ایک جگہ پر جا کر بیٹھ گئے اور کچھ سوچنے لگے، کسی نے عرض کیا : اے امیر المومنین! آپ تو اس جنازے کے ولی تھے اور آپ ہی علیحدہ بیٹھ گئے؟ فرمایا : ہاں! مجھے ایک قبر نے آواز دے کر کہا : اے عمر بن عبدالعزیز! تو مجھ سے یہ کیوں نہیں پوچھتا کہ میں ان آنے والوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہوں؟ میں نے کہا: ضرور بتا ۔ اس نے کہا : جب یہ میرے اندر آتے ہیں تو میں ان کے کفن پھاڑ دیتی ہوں ، میں ان کے بدن کے ٹکڑے کر دیتی ہوں ، سارا خون چوس لیتی ہوں، گوشت کھا لیتی ہوں اور بتاؤ کہ آدمی کے جوڑوں کے ساتھ کیا کرتی ہوں ؟ کندھوں کو بازؤوں سے جدا کر دیتی ہوں ، بازؤوں کو کلائیوں سے جدا کر دیتی ہوں اور سرینوں کو بدن سے جداد کر دیتی ہوں اور سرینوں سے رانوں کو جدا کردیتی ہوں اور رانوں کو گھٹنوں سے اور گھٹنوں کو پنڈلیوں سے اور پنڈلیوں کو پاؤں سے جدا کردیتی ہوں ـ یہ فرماکر حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمت اللہ علیہ رونے لگے اور فرمایا: دنیا کا قیام بہت ہی تھوڑا ہے اور اس کا دھوکہ بہت زیادہ ہے ـ اس میں جو عزیز ہے وہ آخرت میں ذلیل ہے،اس میں جو دولت والا ہے وہ آخرت میں فقیر ہے، اس کا جوان بہت جلد بوڑھا ہوجائے گا ـ(الـعـاقبۃ فی ذکر الموت ـ الاشبلی ص ا۹۱) ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ کتاب : موت کی تیاری (صفحہ نمبر 61) مصنف : حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نور اللہ مرقدہ خود اپنی نظر میں

حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نور اللہ مرقدہ خود اپنی نظر میں

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ سے تھانہ بھون میں متعینہ ایک پولیس افسر نے بیعت کی درخواست کی، جس کے جواب میں آپ نے انہیں اپنا تعارف کراتے ہوئے لکھا: میں ایک خشک طالب علم ہوں، اس زمانہ میں جن چیزوں کو لوازم درویشی سمجھا جاتا ہے جیسے میلاد شریف، گیارہویں، عرس، نیاز، فاتحہ، قوالی و تصرف ومثل ذالک۔ میں ان سب سے محروم ہوں اور اپنے دوستوں کو بھی اس خشک طریقے پر رکھنا پسند کرتا ہوں۔ میں نہ صاحب کرامت ہوں اور نہ صاحب کشف، نہ صاحب تصرف، نہ عامل، صرف اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پر مطلع کرتا رہتا ہوں، اپنے دوستوں سے کسی قسم کا تکلف نہیں کرتا، نہ اپنی حالت، نہ اپنی کوئی تعلیم، نہ امور دینیہ کے متعلق کوئی مشورہ چھپانا چاہتا ہوں عمل کرنے پر کسی کو مجبور نہیں کرتا، البتہ عمل کرتا ہوا دیکھ کر خوش اور عمل سے دور دیکھ کر رنجیدہ ضرور ہوتا ہوں۔ میں کسی سے نہ کوئی فرمائش کرتا ہوں، نہ کسی کی سفارش، اس لئے بعض اہل رائے مجھ کو خشک کہتے ہیں، میرا مذاق یہ ہے کہ ایک کو دوسرے کی رعایت سے کوئی اذیت نہ دوں، خواہ حرفی ہی اذیت ہو ۔ سب سے زیادہ اہتمام مجھ کو اپنے لئے اور اپنے دوستوں کیلئے اس امر کا ہے کہ کسی کو کسی قسم کی اذیت نہ پہنچائی جائے خواہ بدنی ہو جیسے مار پیٹ، خواہ مالی ہو جیسے کسی کا حق مار لینا یا ناحق کوئی چیز لے لینا، خواہ آبرو کے متعلق ہو جیسے کسی کی تحقیر، کسی کی غیبت، خواہ نفسانی ہو جیسے کسی کو کسی تشویش میں ڈالنا یا کوئی ناگوار رنجیدہ معاملہ کرنا اور اگر اپنی غلطی سے ایسی بات ہو جائے تو معافی چاہنے سے عار نہ کرنا۔ مجھے انکا اس قدر اہتمام ہے کہ کسی کی وضع خلاف شرع دیکھ کر تو صرف شکایت ہوتی ہے مگر ان امور میں کو تاہی دیکھ کر بے حد صدمہ ہوتا ہے اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ اس سے نجات دے۔