مصر کے معروف مصنف اور اخوان المسلمون کے شہید رہنما سید قطب نے قید کے آخری ایام میں ایک خوبصورت ایمان افروز نظم تحریر کی تھی، جس کا دلکش اردو ترجمہ محترم خلیل احمد حامدی صاحب نے قطب شہید کی تصنیف "معالم فی الطریق" کے اردو ترجمہ "جادہ و منزل" میں کیا ہے ۔ أخي أنت حر وراء السدود۔۔۔۔۔۔۔۔ أخي أنت حر بتلك القیود إذا كنت باللہ مستعصما۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فماذا يضيرك كيد العبيد اے میرے ہمدم تو طوق و سلاسل کے اندر بھی آزاد ہے  اے میرے دمساز! تو آزاد ہے، رکاوٹوں کے باوجود اگر تیرا اللہ پر بھروسہ ہے   تو اِن غلام فطرت انسانوں کی چالیں تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں أخي سنبيد جيوش الظلام۔۔۔۔۔۔۔ ويشرق في الكون فجر جديد فأطلق لروحك إشراقہا۔۔۔۔۔۔۔۔ ترى الفجر يرمقنا من بعيد برادرم! تاریکی کے لشکر مٹ کر رہیں گے  اور دنیا میں صبح نو طلوع ہو کر رہے گی تو اپنی روح کو ضوفشاں ہونے دے وہ دُور دیکھ صبح ہمیں اشارے کر رہی ہے۔ أخي قد سرت من يديك الدماء۔۔۔۔۔۔ أبت أن تشل بقيد الإماء سترفع قربانہا. للسماء۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مخضبۃ بوسام الخلود جانِ برادر! تیرے ہاتھوں سے خون کے فوارے چھوٹے مگر تیرے ہاتھوں نے کمترین مخلوق کی زنجیروں کے اندر بھی شل ہونے سے انکار کر دیا۔  تیرے ان ہاتھوں کی قربانی آسمان پر اٹھ جائے گی (منظور ہوگی)  اس حالت میں کہ یہ ہاتھ خائے دوام سے گلرنگ ہوں گے أخي إن ذرفت علي الدموع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وبللت قبري بہا في خشوع فأوقد لہم من رفاتي الشموع۔۔۔۔۔۔۔ وسيروا بہا نحو مجد تليد میرے ہمسفر! اگر تو مجھ پر آنسو بہائے  اور میرے قبر کو اُن سے تر کر دے  تو میرے ہڈیوں سے ان تاریکی میں رہنے والوں کے لیے شمع فروزاں کرنا اور ان شمعوں کو ابدی شرف کی جانب لے کر بڑھنا  أخي إن نمت نلق أحبابنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فروضات ربي أعدت لنا وأطيارہا رفرفت حولنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فطوبي لنا في ديار الخلود میرے رفیق! اگر میں احباب کو چھوڑ کر موت کی آغوش میں چلا بھی جاؤں، تو کوئی خسارہ نہیں میرے رب کے باغات ہمارے لیے تیار ہیں ان کے مرغان خوشنو! ہمارے ارد گرد محوِ پرواز ہیں اس ابدی دیار کے اندر ہم خوش و خرم ہيں  اخي إنني ماسئمت الكفاح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ولا أنا ألقيت عني السلاح وإن طوقتني جيوش الظلام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فإني علي ثقۃ ... بالصباح میرے دوست! معرکہ عشق سے میں ہر گز نہیں اکتایا اور میں نے ہر گز ہتھیار نہیں ڈالے اگر تاریکی کے لشکر مجھے چاروں طرف سے گھیر بھی لیں  تو بھی مجھے صبح کے طلوع کا پختہ یقین ہے  فإن أنا مت فإني شہيد ۔۔۔۔۔۔۔وأنت ستمضي بنصر جديد قد اختارنا اللہ في دعوتہ ۔۔۔۔۔۔۔۔وإنا سنمضي علي سنتہ اگر میں مر جاؤں تو مجھے شہادت کا درجہ نصیب ہوگا اور تُو انشاء اللہ نئی کامرانی کے جلو جانب منزل رواں دواں رہے گا اللہ تعالٰی نے اپنی دعوت کے لیے ہمارے نام قرعہ فال ڈالا ہے  بیشک ہم سنت الٰہی پر گامزن رہیں گے  فمنا الذين قضوا نحبہم۔۔۔۔۔۔۔۔ ومنا الحفيظ علي ذمتہ ہم میں سے کچھ لوگ تو اپنا فرض انجام دے گئے  اور کچھ اپنے عہد و پیمان پر ڈٹے ہوئے ہیں  سأفدي لكن لرب ودين ۔۔۔۔۔۔۔۔وأمضي علي سنتي في يقين فإما إلي النصر فوق الأنام ۔۔۔۔۔۔۔وإما إلي اللہ في الخالدين میں بھی اپنے آپ کو نچھاور کروں گا، لیکن صرف پروردگار اور دین حق پر اور یقین و اذعان میں سرشار اپنے راستے پر چلتا رہوں گا یہاں تک کہ یا تو اس دنیا پر نصرت سے بہرہ یاب ہو جاؤں  اور یا اللہ کی طرف چلا جاؤں اور زندگی جاوداں پانے والوں میں شامل ہو جاؤں

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

توحید کے درجات

توحید کے درجات

مسند الهند، امام اکبر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے ارشاد فرمایا ہے کہ عقیدہ توحید کی تکمیل کے لئے چار درجوں کی توحید کا ماننا لازم ہے ، اگر کسی بھی درجہ کی توحید میں ذرہ برابر بھی کمی رہ جائے گی تو انسان ہرگز موحد نہیں کہلایا جا سکتا، وہ چار درجے یہ ہیں : (1) توحید ذات: یعنی یہ ماننا کہ واجب الوجود ذات جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہنے والی ہے، وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، یہ بات اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے میں قطعا نہیں پائی جاتی ۔ (۲) توحید خلق:۔ یعنی یہ تسلیم کرنا کہ آسمان وزمین، عرش وکرسی اور تمام مخلوقات کا خالق صرف اور صرف اللہ تبارک و تعالیٰ ہے ، صفت خلق میں اس کا کوئی سہیم و شریک نہیں ہے اس کو تو حید (ربوبیت بھی کہتے ہیں ) (۳) توحید تد بیر:۔ یعنی یہ یقین کرنا کہ کائنات میں جو کچھ بھی ہوا ہے یا ہو رہا ہے یا آئندہ ہونے والا ہے ، ان سب کا چلانے والا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے، اس نظام کو چلانے میں کسی غیر کو دور دور تک کوئی دخل نہیں ہے، اور اللہ تعالیٰ اپنی مرضی کا خود مالک ہے، اس کے فیصلے کو کوئی روک نہیں سکتا۔ (۴) توحید الوہیت: یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ عبادت کے لائق صرف اللہ کی ذات ہے، اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو معبود بنانا ہرگز جائز نہیں ہے، اور توحید تدبیر کے لئے توحید الوہیت لازم ہے، یعنی جو کائنات کو چلانے والا ہے بس وہی عبادت کے لائق ہے۔ (حجۃ اللہ البالغة ، مع رحمۃ اللہ الواسعة ۵۹۰/۱) توحید کے درج بالا درجات میں سے اول دو درجے یعنی توحید ذات اور توحید خلق عام طور پر بہت سے مشرکین کے نزدیک بھی قابل قبول تھے، اور آج بھی اکثر مشرکین کا یہی حال ہے کہ وہ خالق تو صرف ایک ہی کو مانتے ہیں ( جسے وہ اپنی زبان میں ایشور“ یا ”بھگوان وغیرہ کا نام دیتے ہیں) لیکن توحید کے تیسرے اور چوتھے درجے کو وہ ماننے پر نہ کل تیار تھے اور نہ آج تیار ہیں ۔ حالاں کہ اُن کو مانے بغیر ایمان کا کوئی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ (شرح العقيدة الطحاویہ لامام ابن ابی العز الدمشقی ۲۱)(مستفاد از رحمن کے خاص بندے/ ص:۱۹۶)