جنگ کی آہٹ دو ہفتے گو مگو کی کیفیت میں رہنے کے بعد آج جنگ کا پلڑا جھکتا محسوس ہوا، صبح سے عالمی ائیر لائنس متبادل راستے اختیار کر رہی ہیں، پاکستانی فضائی حدود سے احتیاطی گریز اپنایا جا رہا ہے، یہ اب تک کا سب سے حساس اشارہ ہے، سادہ بات ہے کہ بین الاقوامی برادری کو پیغام دیا گیا ہے۔ ایک بی جے پی ووٹر نے مجھ سے کہا کہ حملہ نوشتۂ دیوار ہے، اگر عسکری کارروائی نہیں ہوئی تو مودی کو ووٹ نہیں ملے گا؛ جب کہ اسے مزید دس سال کرسی پر رہنا ہے، اٹیک نہیں کیا تو ہندو ووٹ نہیں دیں گے، اس نے مزید کہا کہ جنگ سات دن چلے گی، پاکستانی کشمیر ہمارے ساتھ ضم ہوگا، بلوچستان آزاد ہوگا، نیا پاکستان پنجاب، سندھ اور سرحدی علاقوں تک محدود ہوگا، پڑوسی ملک نصف صدی پیچھے چلا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ اس میں بیشتر باتیں زائد ہیں، گودی میڈیا کی تربیت کا اثر ہیں؛ لیکن ووٹ والی بات اہم ہے، واقعی صاحب کے لیے کرو یا مرو کی حالت ہے، جنگ کو بعید سمجھنے والے کہتے ہیں کہ فتح نہ ملنے کی صورت میں صاحب کی ساکھ خاک ہو جائے گی؛ مگر یہ خام خیالی ہے؛ جنگ میں صاحب کی تاریخی فتح یقینی ہے؛ کیوں کہ جنگ دس فی صد میدان میں ہوگی اور نوے فی صد میڈیا میں، میڈیا پورا ان کا ہے، وہ اقدام کی پہلی ساعت میں فتح کا اعلان کر دیں گے، جس میڈیا نے ہندوستانیوں کو ایک ہفتے سے یہ باور کرا رکھا ہے کہ عاصم منیر مع فیملی فرار ہے، اس کے لیے پڑوسی ملک کا خاتمہ تسلیم کرانا مسئلہ نہیں، جس کو میڈیا بیانیے پر تحفظات ہوں گے اسے غداری کی دفعات کا سامنا ہوگا۔