♦️♦️ *امامِ مالکؒ کی بیٹی کا علمی ذوق* ♦️♦️ امام مالك رحمة الّٰله کے بارے میں آتا ہے کہ جب وہ درس دیا کرتے تھے اور لوگ ان کے سامنے مسجد نبوی میں بیٹھ کر حدیث شریف سُنا، پڑھا کرتے تھے ، وہاں ایک جگہ پردہ لگا ہوا ہوتا تھا اور اس کے پیچھے آپ کی بیٹی بیٹھی ہوتی تھی ۔ وہ حدیث شریف کی طالبہ تھی ۔ کبھی کبھی کوئی شخص قرأت کرتے ہوئے اگر کہیں غلطی کر جاتا تو ان کی بیٹی پردے کے پیچھے سے لکڑی پر لکڑی مار کر آواز پیدا کرتی ۔ جب لکڑی کی آواز آتی تو امام مالك رحمة اللّٰه تعالى فوراٗ سمجھ لیتے کہ پڑھنے والے نے کہیں غلطی کی ہے ۔ چنانچہ ان کی بیٹی وقت کے بڑے بڑے علماء کی غلطیوں کو بھی درست کردیا کرتی تھی ۔ اللّٰه رب العزت نے اسکو اتنا علمی مقام عطا کیا تھا!! اس  دور میں عورتوں کو شوق ہوا کرتا تھا ۔ وہ قرآن عزیز کی بھی عالمہ ہوتی تھیں اور حدیث مبارکہ کی بھی عالمہ ہوتی تھیں ۔ ان کی زندگی قرآن کریم کی خدمت میں گزرا کرتی تھی ۔ ان کی شروع سے اٹھان ہی ایسی بنائی جاتی تھی ۔۔۔!! 🎤 حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد صاحب نقشبندی دامت برکاتہم۔۔!! ✭ نوٹ :- عمدہ قسم کے سبق آموز واقعات وحکایات کیلئے آج ہی ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں۔👇 https://whatsapp.com/channel/0029Va5sIvuBKfi0pDP0py1H

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

اللہ والوں کی صحبت کا اثر __؟؟

اللہ والوں کی صحبت کا اثر __؟؟

حضرت مولانا یوسف بنوری رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ ایک مجلس میں ارشاد فرمایا کہ : ایک سال ہم حج کے لئے گئے وہاں علماء کے گروپ میں ایک ریٹائرڈ فوجی افسر بھی تھا تہجد کے وقت وہ فوجی افسر ہم سب سے پہلے اٹھ کر بیت الله شریف چلا جاتا اور اس وقت طواف کرتا تھا ۔ مولانا فرماتے ہیں : میں حیران ہوتا کہ وہ ایک عام آدمی ہے اور میں شیخ الحدیث, دیوبند کا فاضل ، علامہ انور شاہ کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ جیسے محدث کا شاگرد استاذ العلماء ہوں مگر یہ عام سا مسلمان وہ بھی فوجی افسر ریٹائرڈ جو مجھ سے بڑا عابد و زاہد ہے۔ مولانا بنوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : میں نے ایک دفعہ ارادہ کیا کہ اب میں اس سے پہلے تہجد کے لئے اٹھا کروں گا سو جب میں رات کو اٹھا تو یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ وہ اپنے بستر میں سویا ہوا ہے میں بڑا خوش ہوا کہ شکر ہے آج میں عبادت گزار عام سے مسلمان پر فوقیت لے گیا ، حمام سے وضو وغیرہ سے فارغ ہو کر جب میں کمرے میں آیا تو دیکھا وہ ریٹائرڈ فوجی افسر میرے لئے چائے کا کپ لے کر کھڑا ہے ۔ میں حیران ہوا کہ یہ بندہ تو ابھی بستر میں لیٹا ہوا تھا یہ اتنی جلدی باہر سے چائے لے کر بھی آ گیا ہے مگر جب بستر پر نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ اس کے بستر میں کوئی سو رہا ہے, میں نے پوچھا : میاں آپ انسان ہو یا جن ؟ یہ آپ کے بستر میں آپ نہیں تو یہ کون ہے؟ اس نے ہنس کر کہا : مولانا ! میں انسان ہی ہوں، میں جب تہجد سے ذرا پہلے حرم شریف گیا تو میں نے وہاں ایک ناواقف حاجی صاحب کو بخار میں مبتلا دیکھا، مجھ سے رہا نہ گیا اور میں اسے اپنی قیام گاہ پر یہاں لے آیا اس کو اپنے بستر میں سلا کر واپس حرم شریف چلا گیا تھا۔ سو بستر میں یہ میں نہیں بلکہ بیمار حاجی صاحب ہیں ۔ حضرت بنوری رحمہ اللہ نے حیرت زدہ ہو کر اس سے پوچھا کہ میاں آپ کون ہو جس نے یعنی ایک ریٹائرڈ فوجی نے مجھ عالم اور شیخ الحدیث کو, دیوبند کے فاضل کو استاذ العلماء کو, بہت بڑے مدرسے کے مہتمم کو, علماء کے گروپ لیڈر کو زہد و تقویٰ میں پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ آج میں نے ارادہ کیا تھا کہ آج کے بعد آپ سے پہلے اٹھوں گا اور آپ سے پہلے حرم جایا کروں گا لیکن میں آپ کا مقابلہ نہ کرسکا۔ سچ سچ بتا دیں کہ آپ ہیں کون ؟ اس فوجی افسر نے جواب دیا کہ : میں شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کا مرید ہوں. مولانا بنوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : میں نے اپنے آپ پر افسوس کیا کہ قطب الاقطاب مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ سے نسبت کی وجہ سے عام سے ایک مسلمان کو اللہ کے ہاں کتنا خاص مقام حاصل ہے ۔ اس واقعہ سے یہ پتا چلتا ہے کہ اللہ والوں کی صحبت سے اتنا بلند مقام ملتا ہے کہ اگر مرید عام سا مسلمان بھی ہو تو وہ عمل کے لحاظ سے بڑے بڑے اہل علم سے آگے نکل جاتا ہے۔ دعا ہے اللہ تعالٰی ہمیں بھی نیک لوگوں کی قدر کرنے اور ان کی صحبت سے فائدہ اٹھانے کی ہمت و توفیق عطا فرمائے۔ آمین.