آپ کے سامنے جو دو تصاویر ہیں وہ صرف دماغ کی سادہ سی تصاویر نہیں بلکہ دو مختلف کہانیاں ہیں دو مختلف دنیائیں ہیں ان دونوں بچوں کی عمر تین سال ہے جیسا کہ ٹیکساس یونیورسٹی کے ماہر نفسیات ڈاکٹر بروس پیری نے یہ تحقیق شائع کی بائیں جانب والے بچے کا دماغ مکمل طور پر صحت مند ہے کیونکہ وہ ایسے ماحول میں پلا بڑھا جہاں اس کو محبت ملی توجہ ملی اور تحفظ کا احساس ملا جبکہ دائیں طرف والے بچے کو جذباتی اور نفسیاتی طور پر نظر انداز کیا گیا اسے ماں باپ کی گود محبت یا اہمیت کا احساس نہیں ملا نتیجہ یہ ہے کہ اس کا دماغ نہ صرف چھوٹا ہے بلکہ اس میں دماغی خلیات کی بھی شدید کمی پائی گئی یہ فرق صرف دماغ کے سائز میں نہیں بلکہ ان کے مستقبل میں بھی ہوگا ان کی ذہنی صلاحیتوں میں ان کی نفسیاتی صحت میں اور ان کی پوری زندگی میں اس کا اثر رہے گا بچپن صرف ایک وقت نہیں جو گزر جاتا ہے بلکہ بچپن وہ بنیاد ہے جس پر پوری زندگی کی عمارت کھڑی ہوتی ہے ایک محبت بھرا جملہ ایک گود کا احساس ایک محفوظ ماحول یہ سب چیزیں بچے کے دماغ کو صحیح طریقے سے بناتی ہیں اور ایک تندرست انسان کی بنیاد رکھتی ہیں لہٰذا اپنے بچوں کا صرف کھانے پینے کا خیال نہ رکھیں بلکہ ان کے دل کا بھی خیال رکھیں ان کو پیار دیں ان کو گلے لگائیں ان سے بات کریں کیونکہ بچہ صرف جسم سے نہیں دل سے بھی بڑا ہوتا ہے بچپن کا لمس پوری زندگی کا رخ طے کرتا ہے بچے کو صرف خوراک نہیں بلکہ محبت کی بھی بھوک ہوتی ہے جو بچہ محبت سے محروم ہو جائے اس کا دماغ بھی محرومی کا نقش لے بیٹھتا ہے

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نور اللہ مرقدہ خود اپنی نظر میں

حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نور اللہ مرقدہ خود اپنی نظر میں

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ سے تھانہ بھون میں متعینہ ایک پولیس افسر نے بیعت کی درخواست کی، جس کے جواب میں آپ نے انہیں اپنا تعارف کراتے ہوئے لکھا: میں ایک خشک طالب علم ہوں، اس زمانہ میں جن چیزوں کو لوازم درویشی سمجھا جاتا ہے جیسے میلاد شریف، گیارہویں، عرس، نیاز، فاتحہ، قوالی و تصرف ومثل ذالک۔ میں ان سب سے محروم ہوں اور اپنے دوستوں کو بھی اس خشک طریقے پر رکھنا پسند کرتا ہوں۔ میں نہ صاحب کرامت ہوں اور نہ صاحب کشف، نہ صاحب تصرف، نہ عامل، صرف اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پر مطلع کرتا رہتا ہوں، اپنے دوستوں سے کسی قسم کا تکلف نہیں کرتا، نہ اپنی حالت، نہ اپنی کوئی تعلیم، نہ امور دینیہ کے متعلق کوئی مشورہ چھپانا چاہتا ہوں عمل کرنے پر کسی کو مجبور نہیں کرتا، البتہ عمل کرتا ہوا دیکھ کر خوش اور عمل سے دور دیکھ کر رنجیدہ ضرور ہوتا ہوں۔ میں کسی سے نہ کوئی فرمائش کرتا ہوں، نہ کسی کی سفارش، اس لئے بعض اہل رائے مجھ کو خشک کہتے ہیں، میرا مذاق یہ ہے کہ ایک کو دوسرے کی رعایت سے کوئی اذیت نہ دوں، خواہ حرفی ہی اذیت ہو ۔ سب سے زیادہ اہتمام مجھ کو اپنے لئے اور اپنے دوستوں کیلئے اس امر کا ہے کہ کسی کو کسی قسم کی اذیت نہ پہنچائی جائے خواہ بدنی ہو جیسے مار پیٹ، خواہ مالی ہو جیسے کسی کا حق مار لینا یا ناحق کوئی چیز لے لینا، خواہ آبرو کے متعلق ہو جیسے کسی کی تحقیر، کسی کی غیبت، خواہ نفسانی ہو جیسے کسی کو کسی تشویش میں ڈالنا یا کوئی ناگوار رنجیدہ معاملہ کرنا اور اگر اپنی غلطی سے ایسی بات ہو جائے تو معافی چاہنے سے عار نہ کرنا۔ مجھے انکا اس قدر اہتمام ہے کہ کسی کی وضع خلاف شرع دیکھ کر تو صرف شکایت ہوتی ہے مگر ان امور میں کو تاہی دیکھ کر بے حد صدمہ ہوتا ہے اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ اس سے نجات دے۔