میری ناقص رائے میں!؟ ٭٭٭ حسنِ اتفاق ہے کہ آج پے بہ پے دو نہایت قابلِ احترام اہلِ علم کی تحریروں میں بطورِ انکسار یہ مشہور جملہ نظر سے گزرا: ’’میری ناقص رائے میں۔‘‘ بندۂ ناچیز کی رائے میں یہ تعبیر کچھ موزوں نہیں۔ سوچیے، جب آپ خود اپنی بات کو ناقص قرار دے رہے ہیں تو پھر اس کے بیان کا جواز کیا رہ جاتا ہے؟ اور کوئی سامع یا قاری اسے سنجیدگی سے کیوں لے گا؟ یاد رہے کہ ’’ناقص‘‘ کے معنی ہی عیب دار، ناپختہ، خراب اور کم تر کے ہیں۔ سو جس بات کو آپ دلیل کے طور پر پیش کر رہے ہوں، اسے ازخود معیوب کہنا (اگرچہ مراد یہ نہ ہو) مناسب تو نہیں۔ انکسار کے اظہار کے لیے کہیں زیادہ مناسب ہوگا کہ یوں کہا جائے: ’’میری عاجزانہ رائے میں‘‘ بلکہ زیادہ خوبصورتی اس میں ہے کہ نسبت رائے کی طرف نہیں، اپنی ذات کی طرف کی جائے، جیسے: ’’مجھ ناچیز کی رائے میں۔‘‘ ٭

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

علّامہ اِقبال اور جذبہ اطاعت رسول

علّامہ اِقبال اور جذبہ اطاعت رسول

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے سنت رسول کی پیروی کو اپنا شیوہ حیات بنالیا تھا۔ جوہر اقبال میں ایک عجیب اور بصیرت افروز واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ جس سے علامہ اقبال کے جذبہ شوق و اطاعت رسول کا اندازہ ہوتا ہے۔ لکھتے ہیں کہ پنجاب کے ایک دولت مند رئیس نے ایک قانونی مشورے کے لیے اقبال اور سر فضل حسین اور ایک دو مشہور قانون دان اصحاب کو اپنے ہاں بلایا، اور اپنی شاندار کوٹھی میں ان کے قیام کا انتظام کیا۔ رات کو جس وقت اقبال اپنے کمرے میں آرام کرنے کے لیے گئے تو ہر طرف عیش و تنعم کے سامان دیکھ کر، اور اپنے نیچے نہایت نرم اور قیمتی بستر پا کر معا ان کے دل میں یہ خیال آیا کہ جس رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتیوں کے صدقے میں آج ہم کو یہ مرتبے حاصل ہوئے ہیں، اس نے بوریے پر سوکر زندگی گزار دی تھی ۔ یہ خیال آنا تھا کہ آنسوؤں کی جھڑی بندھ گئی۔ اسی بستر پر لیٹنا ان کے لیے ناممکن ہو گیا۔ اٹھے اور برابر کے غسل خانے میں جا کر ایک کرسی پر بیٹھ گئے، اور مسلسل رونا شروع کر دیا۔ جب ذرا دل کو قرار آیا تو اپنے ملازم کو بلوا کر اپنا بستر کھلوایا ، اور ایک چار پائی اسی غسل خانے میں بچھوائی۔ اور جب تک وہاں مقیم رہے، غسل خانے ہی میں سوتے رہے۔ یہ وفات سے کئی برس پہلے کا واقعہ ہے۔ (محمد حسنین سید۔ جوہر اقبال - ص 39-40، مطبوعہ مکتبہ جامعہ دہلی 1938)(ماہنامہ صدائے اسلام/ستمبر/۲۰۲۴)