🌾 گندم کی کاشت ۔۔۔۔۔۔۔!! کہتے ہیں کسی ملک میں ایک بہت ہی انصاف پسند اور مہربان بادشاہ رہا کرتا تھا ۔ اس کے تین بیٹے تھے۔ بادشاہ جب بوڑھا ہونے لگا تو اس نے اپنے سب سے قابل وزیر کو بلایا اور کہا کہ وہ اپنی بادشاہت اپنے تین بیٹوں میں سے کسی ایک کے سپرد کرنا چاہتا ہے پر اس سے فیصلہ نہیں ہو پا رہا ۔ وزیر نے کہا "بادشاہ سلامت اس مسئلے کا ایک آسان سا حل ہے۔"‌ یہ سن کر بادشاہ بہت خوش ہوا اور ہمہ تن گوش ہوگیا ۔ وزیر نے صلاح دی کہ گندم کی ایک ایک بوری تینوں بیٹوں کو دے دیں اور ان سے کہہ دیں کہ آپ لمبے سفر پر جا رہے ہیں اور تین سال بعد واپس آئیں گے ، جب تک امانت سمجھ کر گندم کی حفاظت کریں۔ واپسی پر آپ خؤد جان جائیں گے کہ کون سا شہزادہ تاج و تخت کے قابل ہے ۔ بادشاہ کو اپنے وزیر کی تجویز بہت اچھی لگی اور اس نے وہی کیا جیسا اس نے کہا تھا۔ بادشاہ کے جانے کے بعد تینوں بیٹے گندم کی ایک ایک بوری کے ساتھ سوچ میں پڑ گئے کہ اب کیا ایسا کریں کہ بابا کو بحفاطت گندم واپس کر سکیں ۔ چناچہ بڑے بیٹے نے گندم کو محل کی تجوری نما الماری میں رکھ کر تالا لگا دیا اور سکھ کا سانس لیا کہ ایک ایک دانہ اسی طرح سے واپس کر دے گا جیسا اسے دیا گیا تھا ۔ دوسرے بیٹے نے گندم کو ایک خالی کھیت میں جہاں خوردرو جھاڑیاں اور گھاس اگی ہوئی تھی وہاں ڈال دیا تاکہ محفوظ‌ رہے اور اگتی بھی رہے۔ تیسرے بیٹے نے سوچا پورے تین سال بعد گندم واپس کرنی ہے اس لیئے بہتر ہے اس کی کاشت کی جائے ۔ اس نے اچھی سی زمین دیکھ کر پہلے جھاڑ جھنکار نکالا ، مٹی کنکر چن چن کر نکالے، طریقے سلیقے سے زمین کو نرم کیا اور بڑی محبت سے گندم بو دی ۔ دن رات سوچتا بابا جب آئیں گے تو لہلاتی کھلکھلاتی جھومتی ہوئی گندم کے خوشوں سے مل کر کتنا خوش ہو جائیں گے۔ تین برس گزر گئے ، بادشاہ سفر  سے لوٹ‌ آیا۔ اس نے گندم کی بابت اپنے بیٹوں سے پوچھا ۔ بڑے بیٹے نے بڑے فخر سے تجوری نما الماری کا تالا کھولا اور شرمندہ ہو گیا ۔ پوری گندم سڑ کر کالی مٹی ہو چکی تھی ۔ بادشاہ کو بہت رنج ہوا اور دوسرے بیٹے کی طرف متوجہ ہوا وہ اسے اس کھیت کی طرف لے چلا جہاں اس نے گندم ڈالی تھی ۔ جب وہ وہاں پہنچا تو دیکھا کھیت میں کہیں کہیں کمزور سے گندم کے پودے تھے جنہیں جھاڑ‌ جھنکار نے بڑھنے ہی نا دیا تھا ۔ وہ شرمندگی سے اپنے بابا کو دیکھ رہا تھا کہ گندم کا ایک دانہ بھی واپس نا لوٹا سکا ۔ مایوس اور افسردہ بادشاہ تیسرے بیٹے کے پاس پہنچا ۔ وہ خوشی خوشی اپنے بابا کو کھیت کی طرف لے چلا جہاں دور تک گندم کے سنہری خوشے قطار در قطار لہلا رہے تھے ، فضا خوشبو سے مہک رہی تھی ۔ بادشاہ کی آنکھوں میں خوشی سے آنسو آ گئے ، بیٹے کو گلے لگا کر شاباش دی ۔۔ کھیت کے کنارے بادشاہ بہت محبت سے اپنے بیٹوں سے مخاطب تھا. خدا  ہم انسانوں کو بھی گندم کی طرح کچھ “ بیج “دے کر دنیا میں بھیجتا ہے۔ پھر وہ ہمارا انتظار کرتا ہے کہ ہم واپسی پر اس کے دیئے بیج کس حالت میں واپس لاتے ہیں ۔ سنو ! ہم زمین کی طرح ہوتے ہیں ، جو سخت پتھریلے ہوئے تو خدا  کے دیئے بیج سڑ کر کالی مٹی جیسے ہو جائیں گے۔ بیج کی پرورش کے لئے صاف ستھرا ، جھاڑ‌ جھنکار سے پاک ہونا بہت ضروری ہے ۔اور جو شخص بیج کی نمو کے لئے خود کو نرم رکھتا ہے ، خدا کے دیئے ہوئے بیج وہیں بارآور ہوتے ہیں۔ اس کے اطراف رحمتوں کی بارش ہوتی ہے، بارشوں کے بعد انسان کسی جنگل کی طرح اندر باہر سے ہرا بھرا، خوشبودار اور مخلوق کی قرار گاہ ہوجاتا ہے۔ سوچو ایسا انسان جب تین گنا زیادہ بیج لئے خدا  کے پاس پہنچے گا تو وہ کتنا خوش ہوگا ۔۔!‌ دوسرے دن بادشاہ نے بھرے دربار میں تاج اپنے سر سے اتار کر اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کے سر پر رکھ دیا۔

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

بادشاہ اور سیب فروش

بادشاہ اور سیب فروش

ایک دن ایک حکمران محل میں بیٹھا ہوا تھا. جب اس نے محل کے باہر ایک سیب فروش کو آواز لگاتے ہوئے سنا: *"سیب خریدیں! سیب!"* *حاکم نے باہر دیکھا کہ ایک دیہاتی آدمی اپنے گدھے پر سیب لادے بازار جا رہا ہے۔حکمران نے سیب کی خواہش کی اور اپنے وزیر سے کہا: خزانے سے 5 سونے کے سکے لے لو اور میرے لیے ایک سیب لاؤ۔* *وزیر نے خزانے سے 5 سونے کے سکے نکالے اور اپنے معاون سے کہا: یہ 4 سونے کے سکے لیں اور ایک سیب لائیں۔* *معاون وزیر نے محل کے منتظم کو بلایا اور کہا: سونے کے یہ 3 سکے لیں اور ایک سیب لائیں۔* *محل کےمنتظم نے محل کے چوکیداری منتظم کو بلایا اور کہا:* *یہ 2 سونے کے سکے لیں اور ایک سیب لائیں۔* *چوکیداری کے منتظم نے گیٹ سپاہی کو بلایا اور کہا:* *یہ 1 سونے کا سکہ لے لو اور ایک سیب لاؤ۔* *سپاہی سیب والے کے پیچھے گیا اور اسے گریبان سے پکڑ کر کہا:* *دیہاتی انسان! تم اتنا شور کیوں کر رہے ہو؟ تمہیں نہیں پتا کہ یہ مملکت کے بادشاہ کا محل ہے اور تم نے دل دہلا دینے والی آوازوں سے بادشاہ کی نیند میں خلل ڈالا ہے. اب مجھے حکم ہوا ہے کہ تجھ کو قید کر دوں۔* *سیب فروش محل کے سپاہیوں کے قدموں میں گر گیا اور کہا:* *میں نے غلطی کی ہے جناب !* *اس گدھے کا بوجھ میری محنت کے ایک سال کا نتیجہ ہے، یہ لے لو، لیکن مجھے قید کرنے سے معاف رکھو !* *سپاہی نے سارے سیب لیے اور آدھے اپنے پاس رکھے اور باقی اپنے منتظم کو دے دیئے۔* *اور اس نے اس میں سے آدھے رکھے اور آدھے اوپر کے منتظم کو دے دیئے اور کہا,* *کہ یہ 1 سونے کے سکے والے سیب ہیں۔* *افسر نے ان سیبوں کا آدھا حصہ محل کےمنتظم کو دیا، اس نے کہا,* *کہ ان سیبوں کی قیمت 2 سونے کے سکے ہیں۔* *محل کے منتظم نے آدھےسیب اپنے لیے رکھے اور آدھے وزیر کو دیے اور کہا,* *کہ ان سیبوں کی قیمت 3 سونے کے سکے ہیں۔* وزیر نے آدھے سیب اٹھائے اور وزیر اعلی کے پاس گیا اور کہا,* *کہ ان سیبوں کی قیمت 4 سونے کے سکے ہیں۔* *وزیر نے آدھے سیب اپنے لیے رکھے اور اس طرح صرف پانچ سیب لے کر حکمران کے پاس گیا اور کہا,* *کہ یہ 5 سیب ہیں جن کی مالیت 5 سونے کے سکے ہیں۔* *حاکم نے اپنے آپ سوچا کہ اس کے دور حکومت میں لوگ واقعی امیر اور خوشحال ہیں، کسان نے پانچ سیب پانچ سونے کے سکوں کے عوض فروخت کیے۔ ہر سونے کے سکے کے لیے ایک سیب۔* *میرے ملک کے لوگ ایک سونے کے سکے کے عوض ایک سیب خریدتے ہیں۔ یعنی وہ امیر ہیں۔اس لیے بہتر ہے کہ ٹیکس میں اضافہ کیا جائے اور محل کے خزانے کو بھر دیا جائے۔* *اور پھر یوں عوام میں غربت بڑھتی بڑھتی بڑھتی بڑھتی بڑھتی ہی چلی گئی۔* *فارسی ادب سے ماخوذ*